ایون فلیڈ ریفرنس مریم نواز اور کیپٹن ر صفدر کی سزا بلا جواز قرار تفصیلی فیصلہ جاری
احتساب عدالت کا چھ جولائی 2018 کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر اپیلیں منظور کی جاتی ہیں، فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے احتساب عدالت کا چھ جولائی 2018 کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر اپیلیں منظور کرلیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرنے کا 41 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے نواز شریف کے خلاف کرپشن کا الزام مسترد کیا جس کے خلاف اپیل دائر نہیں کی گئی، نواز شریف کے خلاف واحد الزام آمدن سے زائد اثاثوں کا تھا، کمپنیوں کی ملکیت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو نواز شریف سے منسوب کیا گیا۔
عدالت نے لکھا ٹرائل کورٹ نے کہا کہ پانامہ کی لا فرم کے لیٹرز اس بات کا ثبوت ہیں کہ مریم نواز ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بینفشل اونر ہیں، قانون شہادت آرڈر کے تحت کسی دوسرے ملک سے موصول شدہ دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جائے گا۔
ٹرائل کورٹ نے قانون کی غلط تشریح کی، یہ لیٹرز کسی حکومت نہیں، لا فرم کی جانب سے تھے۔ ان دستاویزات پر انحصار کر کے مریم نواز کو سزا سنانا بلاجواز تھا۔ اگر ان دستاویزات کو درست بھی مان لیا جائے تو مریم نواز کو نواز شریف کے زیر کفالت ہونے کا ثبوت نہیں دیا گیا۔
ججز نے کہا کہ ایسی کوئی بات بھی ثابت نہیں کی گئی کہ پراپرٹیز خریدنے کے لیے رقم نواز شریف نے ادا کی۔ پراسیکوشن نے نواز شریف کے اس وقت کے معلوم ذرائع آمدن کا پتہ لگانا تھا لیکن نیب نے ریکارڈ پر نواز شریف کے نا انکم ٹیکس ریٹرنز نا بنک اکاؤنٹس نا کسی اور سورس کا ذکر کیا اس وقت کی ایون فیلڈاپارٹمنٹس کی قیمت کیا تھی ؟ کتنی قیمت پر پراپرٹیز خریدیں گئیں ؟ کچھ ریکارڈ پر نہیں نیب کے ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ جب پراپرٹیز نواز شریف کے پاس آئیں تو وہ پبلک آفس ہولڈر تھے تفتیش میں نیب کا کردار مایوس کن رہا۔
سپریم کورٹ نے کیس نیب کو بھیجا اور خود بھی تفیش کرنے کا کہا تھا۔ واجد ضیاء ، ڈی جی نیب اور تفتیشی افسر کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ نیب نے تفتیش کی کوشش ہی نہیں کی اور صرف جی آئی ٹی رپورٹ پر انحصار کیا۔ جی ٹی آئی رپورٹ سے ہی حتمی رائے قائم کی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ احتساب عدالت کا چھ جولائی 2018 کا فیصلہ کاالعدم اور اپیلیں منظور کی جاتی ہیں۔ عدالت نے 29 ستمبر 2022 کو بریت کا مختصر فیصلہ سنایا تھا جس کی وجوہات پر مبنی فیصلہ جاری کیا گیا
سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل اس وقت ہمارے سامنے نہیں عدم پیشی پر خارج ہو چکی لیکن مریم نواز کا کیس نواز شریف کے کیس سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نیب ثابت کرنے میں ناکام رہا نواز شریف نے غیر قانونی طریقے سے مریم نواز کے نام ایون فیلڈ اپارٹمنٹس لئے اور نیب کے پاس اس کا بھی ثبوت نہیں کہ مریم نواز نے اصل اونرشپ چھپانے میں معاونت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ نیب کے ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ جب پراپرٹیز نواز شریف کے پاس آئیں تو وہ پبلک آفس ہولڈر تھے، نیب وہ ربط بھی ریکارڈ پر نہیں لا سکا جس سے ثابت ہو نواز شریف پبلک آفس ہولڈر تھا اور غیر قانونی طریقے سے پراپرٹیز لی گئیں۔
ججز نے ریمارکس دئیے کہ نیب کا کہنا ہے 1993 سے 1996 کے درمیان یہ پراپرٹیز خریدیں گئیں،اس کے لیے نیب نے نواز شریف کے پبلک آفس ہولڈر کا نوٹیفکیشن ساتھ لگانا تھا جو نہیں لگایا۔