ارشد شریف قتل احتیاط لازم ہے
ایک انسان کے قتل پر اپنی سیاست نہ چمکائی جائے، اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے سچ کو تلاش کیا جائے
ارشد شریف کا قتل بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)
ارشد شریف کے بہیمانہ قتل نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ جس انداز سے ایک خوبصورت اور مسکراتے انسان کو خون میں نہلا دیا گیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جو ایک خاندان کےلیے تو ہے ہی لیکن بطور مجموعی یہ پاکستانی صحافت کا ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ کرنا ممکن نہیں۔
ارشد شریف ایک ایسے صحافی تھے جن کی پہچان ہی دستاویزات کے ساتھ پروگرام کرنے کی تھی۔ وہ ایک ایسے صحافی کے طور پر مشہور تھے جو بنا اعداد و شمار بات کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کا اس طرح جانا تمام صحافتی برادری کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کو بھی جھنجھوڑ گیا ہے۔ ارشد شریف کا قتل بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ ہمیں جلد یا بدیر ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے ۔ ورنہ کس کی باری کب آجائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
اس المناک حادثے سے جڑی کچھ گزارشات ہیں، جن پر یقیناً تنقید کے نشتر تو برسائے جارہے ہیں لیکن درست، غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات وقت کا تقاضا ہے۔ ہم جتنی بھی ٹامک ٹوئیاں مار لیں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمیں ان کی پاکستان سے روانگی کے چند ماہ پہلے تک کے حالات و واقعات پر غور کرنا ہوگا اور تحقیقات کا دائرہ بھی اسی نہج پر ترتیب دینا ہوگا۔ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم بطور قوم اخلاقی لحاظ سے نہ صرف تنزلی کا شکار ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تنزلی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ارشد شریف کو جس ظالمانہ انداز سے قتل کیا گیا اس کی تحقیقات کا اعلان کردیا گیا ہے اور دو رکنی تحقیقاتی ٹیم کینیا روانہ ہوچکی ہے۔ لیکن ان کا پاکستان سے دبئی تک کا سفر، دبئی سے کینیا جانا اور کینیا میں ایسے المناک حادثے کا شکار ہوجانا صاحبانِ عقل کےلیے فکر کے لمحات ہیں۔
مقامِ حیرت یہ ہے کہ ہم نے ارشد شریف کے قتل کو بھی پارٹی ازم کے تحت دیکھنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ مرحوم کا بیانیہ پاکستان تحریک انصاف کے حق میں زیادہ تھا تو یہ پی ٹی آئی کا اثاثہ ہیں اور انہیں شہید کا درجہ دے کر پوری ایک پارٹی ان کو اپنا ذاتی نقصان قرار دیتے ہوئے اپنے حق میں مکمل طور پر کیش کروانے کی کوششوں میں ہے۔
ایک نامور پاکستانی گیا، ایک اعلیٰ اقدار والا صحافی گیا، ایک خاندان کا واحد سہارا گیا، تو پھر یہ صرف ایک پارٹی کا نقصان کیسے بن گیا؟ اب کیوں کہ پوری ایک پارٹی اس کو ذاتی نقصان قرار دینے کی کوششوں میں ہے تو پاکستان تحریک انصاف کے مخالفین اس معاملے پر نپا تلا موقف اپنے حق میں بھی اپنا رہے ہیں۔ حقیقی معنوں میں دیکھیں تو ارشد شریف کا اس طرح جانا پورے پاکستان کا نہ صرف نقصان ہے بلکہ آنے والی دہائیوں میں یہ آزادی اظہار رائے کی نئی جہتیں متعارف کروائے گا۔ لیکن نامور صحافی کو لگنے والی گولیوں کو بھی پاکستان تحریک انصاف کے ریپر میں لپیٹ کر پیش کیا جارہا کہ جیسے یہ گولیاں ایک قابل و ذہین صحافی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف چلی ہوں۔ ابصار عالم ہوں یا حامد میر، اسد طور ہوں یا پھر ارشد شریف، تمام لوگ صحافتی میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دے رہے ہیں اور قابل افسوس یہ ارشد شریف کا جانا، دل گرفتگی کا عالم ہے۔ لیکن اس کو ہم صرف ایک مخصوص پیرائے میں کیوں دیکھ رہے ہیں؟
اس پورے منظرنامے میں دو انتہائی مثبت باتیں دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں۔ مریم نواز نے ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا۔ انہوں نے انتہائی محتاط زبان استعمال کرتے ہوئے اسے ری ٹویٹ کیا تھا، لیکن لوگوں کی دل آزاری ہوئی۔ صحافتی برادری کی طرف سے بھی اس کی مذمت سامنے آنے لگی۔ ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مریم نواز نے نہ صرف وہ ٹویٹ ختم کردی بلکہ اس پر ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے توجیہہ پیش کی اور اس پر معذرت بھی کی۔ پاکستانی سیاست و صحافت میں پگڑیاں اچھالنے کا رواج چل نکلا ہے، اس لیے یہ معذرت پڑھ کر خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ ہم مخالفت اور تنقید میں طے شدہ حدیں کراس کرنے کی روش اپنا چکے ہیں۔ لہٰذا ایک غلطی پر معافی مانگنا یقینی طور پر احسن قدم ہے۔ مخدوم شہاب الدین ایک وی لاگر ہیں اور اکثر ان کی تنقید کا رخ پاکستان مسلم لیگ نواز اور دیگر حامی جماعتوں کی طرف رہتا ہے۔ ان کے اکثر تجزیوں میں نہ صرف کپتان کی حمایت کا تاثر ابھرتا ہے بلکہ اپنی رائے میں وہ کپتان کے مخالفین کے بھی مخالف تصور کیے جاتے ہیں۔ مثبت سوچ دیکھنے کو ملی کہ انہوں نے اختلافات کے باوجود اس حقیقت کو مانا کہ ابصار عالم، حامد میر، عاصمہ شیرازی اور اسد طور وغیرہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات بھی قابل مذمت ہیں جیسے ہم ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک بہت مثبت پہلو ہے کہ ہم کم از کم ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کے بجائے عقل کا استعمال کرنے لگے ہیں اور اپنے مخالفین پر ہونے والی زیادتیوں کا بھی احساس کرنے لگے ہیں۔ شاید ایک باصلاحیت انسان کے جانے کے پرسوز لمحات ہی ہمارے مستقبل کی راہوں میں کچھ خوشگوار پھول بکھیر جائیں۔
وزیراعظم پاکستان اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کےلیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کرچکے ہیں جو کینیا جاکر معاملات کا جائزہ لے گا اور اپنی رپورٹ مرتب کرے گا۔ تمام ادارے اس بات کے حامی نظر آتے ہیں کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات وقت کی ضرورت ہے۔ اس پیرائے میں منافقت، نفرت اور بغض کے بیانیے کو کسی حد تک جھٹکا لگا ہے لیکن اس کے باوجود ارشد شریف کے جانے کو بہت سے فریقین اپنے مفادات کےلیے استعمال کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ارشد شریف پر چلنے والی گولی کی بھی کوئی مخصوص سوچ تھی؟ اتنے ذہین صحافی کو لگنے والی گولی بھی کیا کسی سیاسی جماعت سے تھی کہ اس کو صرف مخصوص مفادات کےلیے استعمال کیا جائے؟
کسی بھی مظلوم پر چلنے والی گولی کچھ نہیں دیکھتی۔ گولی کی آنکھیں نہیں ہوتیں، وہ اندھی ہوتی ہے۔ وہ ہر سوچ، فکر، بیانیے کو پس پشت ڈال کر رگوں کو چیر دیتی ہے۔ تنقید، لعن طعن، گالم گلوچ اور پگڑیاں اچھالنے کے بجائے اس قتل کی آزادانہ تحقیقات کی جانب اپنے لفظوں کا رخ موڑیے۔ توجہ دیجیے کہ شفاف تحقیقات ہوں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ یہ نہ صرف پاکستان اور صحافتی برادری بلکہ آزادی اظہار رائے کےلیے بھی اہم ہوگا۔ احتیاط وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔ اس قتل کا الزام مخصوص اداروں پر ڈالنے کے بجائے سچ کو تلاش کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔