گرے لسٹ سے اخراج اور توقعات
توقع کی جانی چاہیے کہ معاشی نمو میں بہتری اور ترقی و استحکام کے مثبت اثرات عوام تک بھی منتقل ہوں گے
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے غیر معمولی طور پر جانی و مالی قربانیاں دیں ، لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی ان قربانیوں کو کبھی کھلے دل سے سراہا نہیں گیا۔
کبھی برملا اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ بار بار '' ڈو مور'' کا تقاضا کیا جاتا رہا۔ دہشتگردی کو ہوا دینے کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ 9/11 کے سانحے کے بعد امریکی سر پرستی میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے آغاز میں دباؤ ڈال کر پاکستان کو اس جنگ کا فرنٹ اتحادی بننے پر مجبور کیا گیا۔ بجائے اس کے کہ جواب میں پاکستان کیساتھ تعاون کیا جاتا الٹا پورے ملک کو ہی دہشتگردی کے الاؤ میں جھونک دیا گیا جس کے نتیجے میں کراچی تا خیبر خودکش حملوں ، بم دھماکوں اور ٹارگیٹڈ کلنگ کا ایک نہ رکنے والا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
عام آدمی سے لے کر عالم دین ، سیاستدانوں ، اساتذہ ، وکلا، طلبا تک اور بازاروں، مساجد، مدارس، اسکولوں سے لے کر اہم سرکاری عمارتوں، ہوائی اڈوں اور حساس تنصیبات تک سب کچھ دہشتگردوں کے نشانے پر تھا۔ دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے جان کی بازی لگانیوالی فورسز کے جوانوں اور افسروں کی زندگیاں دہشتگردوں کے خاص نشانے پر تھیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی ہزار سے زائد افراد وطن عزیز میں دہشتگردی کا نشانہ بنے۔ ملک کی اہم سیاسی رہنما اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی دہشتگردی کا نوالہ بن گئیں اور ملک کے کروڑوں غریبوں کی آواز ، جمہوری جدوجہد کی ایک توانا آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کردی گئی۔
دہشتگردوں نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کرکے 144 معصوم طالبعلموں کو شہید کردیا تو ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور حساس اداروں کے سربراہوں نے دہشتگردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب کا دائرہ مزید وسیع اور سخت کردیا اور پوری قوت کیساتھ شمالی وزیرستان، قبائلی علاقہ جات، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کے تحت پاک فوج نے دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کارروائیاں کیں اور ملک میں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگیٹڈ کلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی آگئی۔
بعد ازاں بچے کچھے دہشتگردوں کا بلا امتیاز خاتمہ کرنے کے لیے آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا گیا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ وقفے وقفے سے دہشتگرد عناصر اب بھی اپنی مذموم کارروائیوں کی جھلک دکھاتے رہتے ہیں ، تاہم پاک فوج کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دہشتگردوں کے عزائم کے سامنے دیوار بنے ہوئے ہیں۔اسی دوران پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث بعض تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے لیے پاکستان پر عالمی سطح پر دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ نتیجتاً ان تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی۔
پاکستان کو عالمی برادری کی نظر میں مشکوک بنادیا گیا جس میں پڑوسی ملک بھارت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، اس کی بھرپور کوشش رہی کہ کسی صورت پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دے دیا جائے۔ اس ضمن میں بھارت عالمی فورمز پر پاکستان کیخلاف مذموم پروپیگنڈا بھی کرتا رہا۔ ہرچند کہ اس کی خطرناک سازشیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
تاہم پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشتگرد فنانسنگ کی روک تھام کرنیوالے عالمی ادارے فنانش ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے 29 جون 2018 کو گرے لسٹ میں شامل کرلیا جس سے نکلنے کے لیے 34 نکاتی ایکشن پلان دیا گیا۔دہشتگردی کیخلاف جنگ میں عالمی اتحاد کا حصہ بننے کے باعث پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
اس پر مستزاد گرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد قومی معیشت کی کشتی ڈولنے لگی۔ چونکہ (FATF) کے رکن اداروں میں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں ، لہٰذا ان مالیاتی اداروں سے مالی تعاون کے ضمن میں پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں معیشت کو بڑے دھچکے لگے۔
پاکستان کے حکومتی بالخصوص عسکری اداروں نے گرے لسٹ سے نکلنے اور FATF کے 34 مطالبات پورے کرنے کے لیے سخت محنت کی اور بالآخر مذکورہ ادارے کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ پاکستان نے ان کے تمام نکات پر مکمل عمل درآمد کر لیا ہے ، لہٰذا اب پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال دیا جائے۔
مقام اطمینان اور پوری قوم کے لیے یہ ایک بڑی خبر ہے کہ 20 اکتوبر کو پیرس میں منعقدہ FATF کے اجلاس میں تنظیم کے صدر نے 34 نکاتی مطالبات پر عمل درآمد کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنڈنگ کے حوالے سے 34 نکات پر عمل درآمد مکمل کرلیا ہے۔ پاکستان کی یہ اصلاحات ملک اور خطے کی سلامتی و استحکام کے لیے نیک شگون ثابت ہوں گی۔
انھوں نے یہ توقع ظاہر کی کہ پاکستان اس نظام کو مزید مربوط و منظم کرنے کے لیے اپنا کردار علاقائی سطح پر بھی بھرپور طریقے سے ادا کرے گا۔ گرے لسٹ سے نکلنے کی خبر کا پاکستان کے تمام حلقوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا اور اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ قومی معیشت اور سرمایہ کاری کے خواہش مند حلقوں پر اس کے مثبت و خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ معاشی صورتحال بہتر ہوگی اور روپے کو استحکام ملے گا۔ توقع کی جانی چاہیے کہ معاشی نمو میں بہتری اور ترقی و استحکام کے مثبت اثرات عوام تک بھی منتقل ہوں گے۔