بارٹر سسٹم اور قرض

بارٹر سسٹم دنیا میں ایک طویل ترین عرصے تک رائج رہا ہے



معاشی جائزے کے حوالے سے یہ خبر انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ روس نے پاکستان کو گندم دینے اور چاول لینے کی پیش کش کر دی ہے اور ایسا کچھ بارٹر سسٹم کے تحت ہوگا ، جس پر پاکستانی حکام کو فوری غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔

بارٹر سسٹم دنیا میں ایک طویل ترین عرصے تک رائج رہا ہے، لیکن اس زمانے میں دنیا کی آبادی بہت کم تھی اور بارٹر سسٹم کے تحت بہ غرض تجارت دنیا کے کسی بھی دو ملکوں کی نسبت ملک کے اندر ہی شہری آپس میں تجارت کرتے تھے۔

اس میں اگرچہ کئی قباحتیں بھی موجود تھیں ، چونکہ ان دنوں ضروریات بھی کم تھیں اور خواہشات بھی محدود تھیں۔ لہٰذا بعض مضحکہ خیز طریقوں سے بھی بارٹر سسٹم کے تحت لین دین ہوتا رہا۔ جس میں یقینی طور پر کسی ایک فریق یا تاجر کو نقصان بھی ہو سکتا تھا اور کسی ایک تاجر کو زیادہ فائدہ بھی ہو سکتا تھا۔

مثال کے طور پر گائے اور کپڑے کا آپس میں بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کرنے میں گائے کا خریدار فائدے میں رہ سکتا ہے اور کپڑے کا خریدار نقصان میں رہ سکتا ہے۔

کپڑے جلد ہی استعمال ہو کر بوسیدہ ہوکر پھٹ جاتے ہیں اور گائے کا خریدار تاجر اس لیے فائدے میں رہ سکتا ہے کہ گائے پھر دودھ دیتی ہے پھر اس کے بچھڑے اور افزائش نسل کے ذریعے مزید دولت اکٹھی کر سکتے تھے ، پھر بتدریج آبادی بڑھتی چلی گئی۔

انگریز اور دیگر یورپی اقوام مال تجارت کے جہاز بھر بھر کر لانے لگے اور یہاں کی اشیا و اجناس اور مصنوعات جس میں پارچہ بافی، جامہ بافی، ریشمی کپڑے اور دیگر مصنوعات پہلے پہل انتہائی سستے ترین داموں خرید کر لے جاتے رہے۔ اور آہستہ آہستہ یہاں کی تمام صنعتوں کا بھٹہ بٹھا دیا گیا۔

انگلستان (انگلینڈ) نے تو مانچسٹر اور لیور پول جیسے صنعتی شہر آباد کر لیے۔ بارٹر سسٹم کے تحت نقائص بہت زیادہ تھے ، لیکن روس کی جانب سے پیش کردہ بارٹر سسٹم کے تحت نقائص نہیں بلکہ دونوں کو فائدہ ہوگا۔

پاکستان اگر عالمی منڈی سے گندم خریدتا ہے جیساکہ اسے کم ازکم مارچ اپریل 2024 تک بڑی مقدار میں گندم امپورٹ کرنا ہے تو اسے اپنے خزانے سے زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا ، جب کہ ہم ہر سال ڈھائی سے تین ارب ڈالر کا چاول برآمد کرتے ہیں۔

لہٰذا روس سے اگر سستی گندم خرید لیتے ہیں اور بدلے میں مالیت کے لحاظ سے چاول ایکسپورٹ کرتے ہیں تو اس بارے میں حکام کو تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اور تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پیش کش کو منظور یا نامنظور کا جلد فیصلہ کرلینا چاہیے۔

روس، یوکرین جنگ کے باعث دنیا کی اقتصادی حالت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یورپی ممالک اس وقت بھی موسم سرما میں زیادہ متاثر ہوں گے۔ برطانیہ میں یکے بعد دیگرے کئی وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے ہیں ، لیکن اس دفعہ نئے برطانوی وزیر اعظم کا آنا دنیا کے لیے ایک نیا پیغام ہے۔ کئی صدیاں قبل جس ملک نے برصغیر پر راج کیا تھا۔

آج اس کے ایک ملک پاکستان کے عظیم شہر گوجرانوالہ جسے پہلوانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گوجرانوالہ کے پوتے ''رشی سوناک '' نے پہلے ایشیائی برطانوی وزیر اعظم بن کر یہ معرکہ جیت لیا ہے ، جس پر ڈاکٹر اشرف چوہان کی قیادت میں گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن پر جشن بھی منایا گیا۔

دریں اثنا یہ خبر بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے کاموں کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر جاری کر دیے ہیں۔ جرمنی نے 75 لاکھ یورو دینے کا اعلان کردیا ہے۔

ڈیڑھ ارب ڈالر کی وصولی پر وزیر خزانہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر قرضہ موصول ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں نقد امداد لینے والوں کی تعداد کو 7.9 ملین سے بڑھا کر 9 ملین افراد تک لے جایا جائے گا۔

حکام کے مطابق اس قرضے سے زرمبادلہ کے ذخائر اور توازن ادائیگی میں بہتری پیدا ہوگی۔ جو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک سماجی تحفظ اور ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ ہوگی۔ اب یہاں پر یہی سوال بار بار پیدا ہو رہا ہے کہ قرض کی تقسیم میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک طرح سے ایسا قرض ہے جس کی مانیٹرنگ بھی ہوگی۔

دنیا نے جس طرح سے انتہائی کم ترین سطح پر امداد کا اعلان کیا تھا اس کا بہت کم ہی حصہ اب تک موصول ہوا ہے۔ صوبائی حکومت سندھ نے چند روز قبل واضح کیا تھا کہ سروے کے مطابق ڈھائی لاکھ مکانات جن کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے اس کا ڈیٹا بمع ویڈیو موصول ہوگیا ہے۔

صوبائی حکومت کچھ نقد امداد اور کچھ امداد بطور تعمیراتی میٹریل کے فراہم کردے تو معاملہ زیادہ آسان ہوگا۔ مثلاً لاکھوں اینٹیں یا جن علاقوں میں بلاک کا استعمال ہوتا ہے ان کی گھر گھر سپلائی کے ساتھ بہ قدر ضرورت سیمنٹ اور ریت بھی پہنچا دیے جائیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قلیل رقم بطور امداد تعمیرات کے مل رہی ہیں لیکن اینٹوں ، بلاک ، سیمنٹ، ریت ، بجری اور دیگر ضروری میٹریلز کی خریداری پھر ان کو مقام تک لے کر آنے میں مزید ہزاروں روپے کے اخراجات ان مستحقین متاثرین، مصیبت زدہ افراد کے بس میں نہیں ہیں۔

آج کل ان علاقوں میں اول ذرائع نقل و حمل کی کمی ہے۔ اور پھر ان کے کرائے نامے سن کر ان متاثرین کا کہنا ہے کہ ہمارے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ جب جان بچانے کے لیے سواری کے انتظام میں لگے تھے جب بھی ان کو منہ مانگی قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔

اس وقت ان ٹرانسپورٹرز کو نظر آ رہا تھا کہ مصیبت زدہ لوگ ہیں ان کے پاس تو کھانے خوراک کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اتنی رقم کہاں سے ادا کریں گے۔ اسی سلسلے میں بعض متاثرین کا کہنا تھا کہ رقم نہ ہونے کے باعث وقت پر ہم نقل مکانی نہ کرسکے۔

اور اب ہم ہر طرف پانی سے گھر کر پھنس چکے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ 9 ملین افراد تک امداد کا دائرہ وسیع کرنا چاہتی ہے۔

لہٰذا صوبائی حکومت نے جو کمیٹی بنائی ہے وہ اس سلسلے میں تمام امور کا جائزہ لے تمام خدمات کو مدنظر رکھے اور موقع مناسب کے اعتبار سے ان لوگوں کو تعمیراتی میٹریل ان کے دروازے تک پہنچایا جائے تاکہ یہ ٹرانسپورٹرز کی من مانیوں کا شکار ہو کر قلیل امدادی رقم کے ایک بڑے حصے سے محروم نہ ہو جائیں۔

چہ جائیکہ میٹریل کی خریداری بھی ایک مشکل مرحلہ ہے جب بھی ہر طرح طلب ہی طلب ہوگی تو بھلا بتائیے ان میٹریلز کے دام ان غریب متاثرین کی پہنچ سے باہر نہ ہو جائیں گے۔ امدادی کمیٹی جائزہ لے اور بہتر فیصلہ کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔