کے آئی ایچ ڈی سی کا ایمرجنسی سینٹر 2 ماہ میں بند

ایمرجنسی رسپانس سینٹرکو15جدیدبیڈ،12وینٹی لیٹرز،12سلنڈر،14فلومیٹراور28مانیٹرودیگرسامان دیا گیا


دعا عباس October 29, 2022
جدید ہنگامی امدادی مرکزاسپتال حکام کی عدم توجہی سے غیرفعال ہوگیا ۔ فوٹو : فائل

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے دعوؤں کے برعکس کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کا ہنگامی طبی مرکز (ایمرجنسی رسپانس سینٹر) 2 ماہ کے اندر ہی بند ہوگیا۔

29 اگست کو ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس ایمرجنسی رسپانس سینٹر کا افتتاح کیا تھا ان کی جانب سے اس کو مثالی سینٹر قرار دے کر یہ خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ بلدیہ عظمی کے تمام اسپتالوں میں ایسا ایمرجنسی رسپانس سینٹر قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس ایمرجنسی رسپانس سینٹر میں نئی جدید سہولیات سے آراستہ ایمبولینسز، 14بیڈز کے ساتھ عملہ، آکسیجن اور دیگر سہولیات بھی شامل تھی۔

ذرائع کے مطابق کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارڈ ڈیزیز میں اس ایمرجنسی رسپانس سینٹر کے قیام کے لیے سندھ ریزیلیینس پروجیکٹ کے تحت بیشتر طبی سامان دیا گیا تھا جن میں 15 بیڈز،12 وینٹی لیٹرز،12 آکسیجن سلنڈر، 14 فلو میٹرز اور 28 مانیٹرز سمیت دیگر سامان بھی شامل تھا اس مرکز میں ایمولینس کے لیے 1122 کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر بھی دستخط کیے گئے تھے جس پر کام جاری ہے۔

طبی ساز سامان سمیت اس ایمرجنسی رسپانس سینٹر کی لاگت اندازاً 10 کروڑ روپے کی ہے یہ مثالی مرکز اسپتال حکام کی غیرسیجیدگی کے سبب بند ہوچکا ہے، اسپتال میں مہنگا قیمتی سامان وارنٹی میں ہونے کے باوجود غیر فعال ہے۔

واضح رہے کہ اس ایمرجنسی رسپانس سینٹر سے پہلے اس جگہ اسپتال کا شعبہ ایمرجنسی موجود تھا جوکہ عرصہ دراز سے اسپتال انتظامیہ کی جانب سے بند کردیا گیا تھا اس ایمرجنسی رسپانس سینٹر کے قیام کا مقصد غیر فعال شعبہ ایمرجنسی کو بحال کرنا تھا لیکن متعلقہ حکام کی کاوش اور سہولیات کی فراہمی کے باوجود اسپتال حکام اس ایمرجنسی رسپانس سینٹر کو بحال کرنے کو تیار ہی نہیں تمام تر سہولیات موجود ہونے کے باوجود اس شعبے کا بند ہونا اسپتال حکام کی غیرسنجیدگی کا ثبوت ہے جس کے بعد ہنگامی صورتحال میں لائے گئے مریضوں کو براہ راست انتہائی نگہداشت یونٹ آئی سی یو اور سی سی یو میں داخل کیا جارہا ہے جس سے اسپتال میں موجود انتہائی نگہداشت یونٹوں کا نظام شدید متاثر ہورہا ہے۔

کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارڈ ڈیزیز اب ریفرنس سینٹر کی مانند کام کررہا ہے جہاں پر مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے انھیں نجی اسپتال منتقل کردیا جاتا ہے۔

سرکاری اسپتال میں مفت علاج کی غرض سے آنے والے غریب مریضوں کو اوپی ڈی کی پرچی بنوانے کے لیے 200 روپے کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے، اسپتال کے کیتھ لیب میں موجود انجیوپلاسٹی کی مشین بھی عرصہ دراز سے بند پڑی ہے۔

اس حوالے سے ایکسپریس کی ٹیم نے کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارڈ ڈیزیز کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر رفعت سلطانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے موقف دینے سے گریز کیا جارہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں