لانگ مارچ
اگر یہ سیاسی ہلچل اور سیاسی احتجاج یا مزاحمت نہیں تو پھر کیا ہے
ہماری بزرگ دانش بھی کیا کمال کی تھی کہ اپنے تجربوں اور مشاہدوں پر ایسی ایسی مثل چھوڑ گئے جن میں گیرائی اور گہرائی دونوں ہیں جو تاریخ کے طالبعلموں کو گاہے گاہے سوچنے اور سمجھنے کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔
ہماری نسل کے ذہنوں میں عمران خان کے ساتھی ''لانگ مارچ'' کی وہ تاریخی غلط تصویر پیش کر تے پھر رہے ہیں جس کا پاکستان کی موجودہ صورتحال میں استعمال صرف اور صرف ذاتی یا معروف تبدیلی سیاسی فائدے کے علاوہ کچھ نہیں جب کہ لانگ مارچ کا تاریخی پس منظر تبدیلی سرکار کے بھونپؤں کے بتانے یا پیش کرنے سے یکسر مختلف ہے۔
دنیا کی سیاسی تاریخ میں لانگ مارچ کی معروف اصطلاح چین کے سوشلسٹ انقلاب سے جڑی ہوئی ہے،یہ 19ویں صدی میں چالیس کی دہائی کے ساتھ جڑا ہوا وہ تاریخی عوامی اور نظریاتی کسان لانگ مارچ ہے جو برسر اقتدار کومنتانک کی امریکی نواز نیشنلسٹ پارٹی کے کسانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت سے منسلک ہے،جس میں کسانوں کی لگان کے مسائل اور پیداوار میں ان کی محنت کا معاوضہ نہ دینے اور ان کی جفاکشی کو بے توقیر کرنے میں حکومتی مخالف تحریک ابھری جس کو چین کے کمیونسٹ فکر کے رہنما ماؤزے تنگ نے نظریاتی بنیاد پر منظم کیا اور نیشنلسٹ پارٹی کے خلاف کسانوں کے ''لانگ مارچ'' کو منظم کیا جس میں وقت کے ساتھ عوامی شرکت کو یقینی بنا کر فتحیاب کیا اور اقتدار کو کمیونسٹ پارٹی آف چین نے اپنے اختیار میں لیا۔
یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا میں روس کے کمیونسٹ انقلاب نے عوام کے محکوم طبقات میں سیاسی شعور و بیداری پیدا کی اور پوری دنیا کے مزدور و کسان کے حقوق کی جنگ لڑ کر دنیا میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی امنگ پیدا کی،جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے مختلف خطوں میں جاری و ساری ہے۔۔تاریخی شواہد کی روشنی میں دنیا کی سیاسی تاریخ میں لانگ مارچ کی معروف اصطلاح دراصل چین کے سوشلسٹ انقلاب کی وہ کامیابی ہے کہ جس نے چین کہ دنیا کی عالمی طاقت بنا دیا ہے۔
تاریخی شواہد کی روشنی میں چین کا یہ تاریخی لانگ مارچ 16 اکتوبر 1934 سے جیانگشی تا شانسی سے شروع ہوکر اپنے مقاصد کے حصول تک جاری رہا اور ایک سال کی دشوار گذار جدوجہد سے- 22 اکتوبر 1935 کو کامیاب ہوا۔اس تاریخی لانگ مارچ میں 300000، لاکھ سے زائد سرخ فوج فرنٹ لائن دستے تیار کیے گئے تھے،اس لانگ مارچ نے ماؤ زے تنگ کی زیر قیادت کمیونسٹ طاقت کا آغاز کیا جس کے لیے ان کو پارٹی کے ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
اس لانگ مارچ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ سرخ فوج جس قصبے یا دیہات میں پہنچتی تھی وہاں کی تعمیر و ترقی اور پلوں کی تعمیرات کرتی ہوئی آگے بڑھنے سے پہلے ان کی غذا و صحت کا تمام انتظام کرکے اگلی منزل کی طرف بڑھتی تھی،چین کی کمیونسٹ سرخ فوج نے یہ عمل اور عوام دوست رویہ اپنے لانگ مارچ کے دوران مسلسل راستے میں آنے والے قصبے اور دیہات کے عوام کے ساتھ روا رکھا،جس سے لانگ مارچ میں عوامی شرکت اور جدوجہد بڑھتی گئی۔
اس لانگ مارچ کی دشوار اور تلخ جدوجہد کے دوران جینانگسی سے نکلنے والے کل تعداد کا تقریبا ایک دسواں حصہ مکمل ہو چکا تھا یہ جدوجہد چین کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے،کمیونسٹوں کے اس لانگ مارچ کی قیادت ماؤ زے تنگ اور چو این لائی کر رہے تھے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق انھوں نے 370 دنوں میں نو ہزارکلو میٹر (پانچ ہزار چھ سومیل) کا فاصلہ طے کیا یہ بڑی کٹھن اور مشکل مہم تھی، جس میں زیادہ تر راستہ شانسی جیسے شمال مغرب علاقے کی سنگلاخ پہاڑیوں سے ہو کر گزرا تھا۔جس میں کمیونسٹ فوج کے ہزاروں افراد نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
لاہور سے شروع ہونے والے تحریک انصاف کے نام نہاد،ذاتی اور گروہی مفاداتی لانگ مارچ کو ان ہی کی پارٹی کے ایک معروف رہنما فیصل واوڈا نے مذکورہ مارچ کو ''خونی'' قرار دے چکے ہیں جب کہ ملک کے اہم ادارے مذکورہ مارچ کو ملکی عدم استحکام اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا اشارہ دے چکے ہیں،جب کہ دوسری جانب تحریک انصاف کی مخالف سیاسی پارٹیاں اس مارچ کو تحریک انصاف کو سیاسی ناکامی سے بچانے کی ایک مہم جوئی قرار دے رہی ہیں،جب کہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اس مارچ کو سیاسی نہ کہنے پر مصر ہیں اور اسے ''حقیقی آزادی'' کے لیے مسلسل جہاد قرار دے رہے ہیں،سوال یہ نہیں کہ مذکورہ مارچ کامیاب ہوتا ہے ہے یا ناکام۔
سوال اس سے بڑا یہ ہے کہ اگر یہ سیاسی ہلچل اور سیاسی احتجاج یا مزاحمت نہیں تو پھر کیا ہے، کیونکہ جہاد تو ایمان پر قابض قوتوں کے خلاف خالص مذہبی قواعد و ضوابط کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔دلچسپ بات ہے کہ جب تحریک انصاف کی قیادت سے اس کی تفہیم مانگی جاتی ہے تو وہ اسے امپورٹیڈ حکومت کے خلاف جہاد اور جدوجہد کے مابین رکھ کر کوئی واضح موقف اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی مذکورہ الجھن اور غیر سیاسی سوچ کم از کم اس بات کو تو ضرور واضح کرتی ہے کہ تحریک انصاف اپنی غیر سیاسی اٹھان میں غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار سیاسی عقیدہ پرست ہجوم کا وہ جتھہ ہے جو اپنی انتہا پسند سوچ کے ساتھ طالبان اسٹائل کا ہدف حاصل کرکے اپنی من۔پسند آئینی تفہیم اور قانون سازی چاہتی ہے جو بادی النظر میں جمہوریت کے پردے میں فاشزم نافذ کرنے کا وہ چھپا ہوا ہدف ہے جس کا اظہار وہ عوام کے سامنے نہیں کرنا چاہتی جب کہ در پردہ اس میں ایک ہٹ دھرمی اور ہر جائز ناجائز طریقے سے آمرانہ سوچ کے جرثومے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس مرحلے پر دیکھنا یہ ہے کہ جرمنی کے ہٹلر کی طرح حکومت اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی عوام عمران خان کے فاشزم کو کیسے اور کس طرح شکست دے کر عظیم تر لانگ مارچ کے مقاصد کو ''فتنہ مارچ'' سے بچا کر عوام کی سیاسی و نظریاتی تربیت کیسے اور کس طرح کرتی ہے،یہی وہ اہم سوال یا موڑ ہے جو مستقبل کے سیاسی و معاشی زاویوں کو طے کرے گا۔