لانگ مارچ… نتیجہ کیا ہو گا
یہ بات طے ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کسی نظریے کی بنیاد پر نہیں ہے
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے احتجاجی لانگ مارچ کا آغاز ہوگیا ہے۔ پروگرام کے مطابق یہ مارچ لاہور سے اسلام آباد تک تین سو کلو میٹر کا فاصلہ مرحلہ وار طے کرکے چار نومبر کو جمعے ہی کے دن اسلام آباد پہنچے گا۔
مارچ کا مقصد پی ڈی ایم کی حکومت کو ختم کرنا اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرانا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی حکومت کا موقف ہے کہ اس کا مقصد غیرقانونی طریقے سے قانونی حکومت کو ختم کرنا اور اسلام آباد میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اب تک لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومتوں کو تبدیل کرنے کی کوشش ناکام رہی ہے لیکن یہ بات سب کو بخوبی علم ہے کہ اس صورتحال سے پاکستان کا ہر شہری انتہائی پریشان ہے اور اسے فلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
ملک کا سیاسی منظرنامہ اس وقت سنسنی خیزی، تشویش اور بے سمت مسافرت کا ایک ایسا منظر ہے جسے نہ چاہتے ہوئے بھی سب کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ بیک وقت اس منظر نامے کے کردار ہیں ۔ اس منظر تک ہم کیسے پہنچے اس پر بحث اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن فی الحال ہم منظرنامے کی طرف آتے ہیں۔
ملک کے اس سیاسی منظرنامے کو ترتیب دینے اوراور بھگتنے والے سارے کردار نہ تو سکون کی نیند سو سکتے ہیں اور نہ ہی اس صورتحال کا متفقہ علیہ فوری حل پیش کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور پاناما کیس میں انھیں اقامہ کی بنیاد پر سزا دینے کے بعد سے لے کر اب تک ملک کا سیاسی نظام مسلسل طلاطم اور بے یقینی کا شکار ہے۔
ایک طرف وفاق کو پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کی مزاحمت کا سامنا ہے تو دوسری طرف عمران خان ہر طرف حملہ آور ہونے کی کوشش میں ہے۔ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت کا سامنا ہے۔ ملک کی معیشت اور خارجہ پالیسی کہہ رہی ہے کہ... نہ سمجھو گے تو مٹ جا وگے پیارے پاکستانیوں، لیکن ہم ہیں کہ مجال ہے جو، جوں رینگے۔
بے بس اور بے کس عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم اپنے سیاسی نظام کی سمت کا تعین کیوں نہ کر سکے۔ ہم نے صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام کا نشہ بھی لے لیا اور بلا شرکت غیرے کئی دہائیوں تک ڈکٹیٹر شپ بھی دیکھ لی، آئین اور قانون کی گردان بھی سن لیں لیکن ہمارا دائرے کا سفر ختم ہونے کو نہیں آرہا۔
عمران خان سے خواہ کتنا ہی اختلاف کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بیانیے بنانے کا ماسٹرہے۔ سوشل میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے عمران خان نے درجنوں ایسے بیانیہ بنائے جو اب تک زبان زد عام ہیں، ان میں 2014 کے اسمبلی کو جعلی قرار دینا، چار حلقوں کو کھولنا، 35 پنکچر لگانا، نواز شریف کو بھگوڑا کہنا، زرداری سب سے بڑی بیماری اور مولانا کو ڈیزل کا خطاب دینا، موجودہ حکومت کو امپورٹڈ اور امریکی خط کو سازش کہنا شامل ہیں۔ بیانیہ بنانے کے اس عمل میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کسی بھی طرح اس کے پاسنگ نہیں۔
نون لیگ میں مریم نواز کے سوا کوئی ایسا لیڈر نہیں جو عوام کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔ مریم نواز بہت حد تک کرشماتی شخصیت ہیں۔ بلاول بھٹو میں توانائی اور علم تو ہے لیکن وہ ابھی تک عوام کو پوری طرح کنیکٹ نہیں کر سکے۔ نواز شریف کی شخصیت میں عمران خان کی طرح کے کرشمے کا عنصر موجود نہیں لیکن ان میں تدبر متانت، برداشت اور سیاسی راستے نکالنے کا فن سب سے زیادہ ہے۔ ان کی پاکستان میں غیر موجودگی کا نقصان ن لیگ کو تسلسل سے ہو رہا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ میچور اور زیرک ہیں، وہ سیاست میں ناممکن کو ممکن بنانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں نے دوسری پارٹیوں سے مل کر پہلی بار عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے پارلیمان سے باہر نکلنے پر مجبور کیا، اس میں آصف زرداری کا اہم ترین کردار ہے لیکن عمران خان نے بھی ان کی اس کاوش کو جس چابکدستی سے سازش قرار دیا وہ ان ہی کا کمال ہے۔
عمران خان کے اس بیانے اور لانگ مارچ کے اعلان نے پی ڈی ایم کو متحد رہنے پر مجبور کر دیا ورنہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ مخلوط حکومت کابینہ کی تشکیل کے دوران ہی بکھر جائے گی۔ عمران خان اس بار حکومت پاکستان امریکا او ر اسٹیبلشمنٹ کو کھلے عام کو للکار رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کے بازوں میں کتنا زور ہے۔عمران خان غلامی اور آزادی کے نعروں کا استعارہ بھی استعمال کر رہے ہیں اور ہینڈلر کہہ کر بھی سوئے ہوئے کو جگا رہے ہیں۔ ان سب اشاروں نے اس سیاسی کھیل کے منظرنامے کو سنسنی خیز اور پریشان کن بنا دیا ہے۔
دھرنا اور لانگ مارچ کی سیاسی اصلاح کا اطلاق اگرچہ کبھی کبھار مغربی ممالک میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن اس کا مرکز و منبع ایشیائی ممالک ہی ہیں۔ دھرنے کی سیاست برصغیر پاک و ہند کا خاصا ہے جب کہ لانگ مارچ کی سیاسی حکمت عملی کا آغاز چین سے ہوا۔ لانگ مارچ کی سیاست کی تاریخ انتہائی دلچسپ اور سبق آمیز ہے۔ جدید دنیا میں لانگ مارچ تحریک کے بانی عوامی جمہوریہ چین کے عظیم راہنما مائوزے تنگ تھے۔ مائوزے تنگ نے چیانگ کائی شک اور اس کے حواریوں کو اسی لانگ مارچ کے انقلابی عمل سے بھگایا۔
چین میں ہونے والا لانگ مارچ کوئی ایک واقعہ نہ تھا بلکہ یہ ایساعمل ایک سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس مارچ میں مائوزے تنگ کے قریبی ساتھی، مزوروں اور کسانوں کی بڑی تعداد شامل تھی، یہ لوگ چین کے مختلف علاقوں سے اپنے اپنے گروپ لے کر لانگ مارچ میں شامل ہوتے رہے۔ مائوزے تنگ اور چون لائی کی قیادت میں لانگ مارچ کے شرکاء نے ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر (آٹھ ہزار میل) کا سفر تین سو ستر دنوں میں طے کیا۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں سابق صدر جنرل ارشاد کی حکومت ختم کرنے کے لیے لانگ مارچ کی طرز پر لوگ جمع ہوئے۔ حال ہی میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے تحریر چوک میں عرب دنیا کی نئی تاریخ لکھی گئی۔ پاکستان میں بھی کئی بار لانگ مارچ کیا گیا۔ جماعت اسلامی بینظیر بھٹو اور مولانا نے بھی لانگ مارچ کی کال دی۔ ان لانگ مارچوں کے نتائج اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ وکلاء نے عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی کے لیے اس قدر منظم اور پرامن تحریک شروع کی۔
سول سوسائٹی اور میڈیا اور مسلم لیگ (ن) نے اس تحریک کا مثالی ساتھ دیا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے ججزبحال ہوئے۔ پارلیمنٹ کی موجودگی میں لانگ مارچ اور ریلیوں کی طرز کے عظیم اجتماعات ہماری قومی سیاست کی نئی جہتیں ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںعمران خان کا لانگ مارچ اور دھرنا کیا رنگ لاتا ہے۔
اس سیاسی ڈرامے یا تحریک کا انجام کیا ہوگا اس کا اندازہ چند روز میں ہو جائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کسی نظریے کی بنیاد پر نہیں ہے اور نہ تحریک انصاف اور اس کا قائد اور دیگر قائدین انقلابی ہیں،ان کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہے ، عوام کی بھلائی کا کوئی پروگرام ان کے پاس ہوتا تو چار سالہ دور حکومت میں سامنے آجاتا۔ بہرحال وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ ہمارے قائدین دانشمندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کر لیں ۔