کیا جھوٹ کیا سچ
خان صاحب ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں جہاں سے واپس آنا اب بہت مشکل ہے
یہ نہیں کہ ہم اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، دراصل فوج پہلی بار جمہوری قوتوں کے، آئین کی بالادستی کے لیے اداروں کے مستحکم ہونے کے لیے آج ان کے ساتھ کھڑی ہے، یہ نہیں کہ عمران خان سول بالادستی کی جنگ لڑرہے ہیں۔
خان صاحب دراصل چاہ رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ کھڑی ہو، سیاست میں مداخلت کرے اور ان کا ساتھ دے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خان صاحب خود ضیاالحق کی باقیات کی سرپرستی میں پلے بڑھے ہیں پھر ان کی مدد سے 2018 کے انتخابات جیتے لیکن جب معاشی تباہی شروع ہوئی اور جب بین الاقوامی تنہائی کا ہم تیزی سے شکار ہونے لگے، تب ہماری اسٹبلشمنٹ نے جا کے ہوش کے ناخن لیے، افغانستان میں طالبان کی حکومت بنی جن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے، خان صاحب ان کے بھی بڑے حامی اور ہمدرد تھے۔
فرض کرلیجیے اگر روس یوکرین پر قبضہ کرجاتا تو اس سے بھی خان صاحب کو سیاسی فائدہ ہوتا۔ آج جس طرح وہ اداروں کے خلاف کھل کے بول رہے ہیں، اس سے ہندوستان کے چینل جشن منا رہے ہیں کہ جو کام ہم نہیں کر پائے وہ خان صاحب کرکے دکھا رہے ہیں۔
پچھتر سال بعد ہم ایک نئے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمیں اب کوئی بین الاقوامی خطرات نہیں بلکہ داخلی خطرات ہیں۔ ہماری فوج کا سیاست سے الگ ہونا، یہاں کے ایک مخصوص اور انتہائی بااثرگروہ کو اچھا نہیں لگا، یہ کسی طرح بھی سول حکمرانی کی جنگ نہیں ہے، جو بظاہر لگ رہی ہے۔
خان صاحب کے دور حکومت کا ریکارڈ ہمارے پاس پڑا ہے، جس طرح سے عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی میں جو موشن ڈالا گیا، اسے کس طرح روندنے کی کوشش کی گئی، خود جو امریکی مداخلت کا بیانیہ بنایا وہ کتنا بڑا جھوٹ تھا۔ ان چار برسوں میں جو قرضے لیے، جس طرح ڈالر بے قابو ہوا، چینی اسکینڈل، آٹا اسکینڈل، اسمبلی میں سینیٹ میں بل پاس کرنے کے لیے ایجنسیوں کو استعمال کیا۔ جو مہنگائی ہوئی ، غربت بڑھی، بیروزگاری ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ ملک کی سا لمیت خطرے میں پڑ گئی۔
خان صاحب کا سب سے کامیاب کام یہ ہے کہ وہ یوٹرن بڑے اسمارٹ طریقے سے لیتے ہیں۔ ان کی پارٹی پروپیگنڈہ کرنے میں سب کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ مگر یہ چیزیں دیرپا نہیں ہوتیں۔
اب ان کے سامنے ایک بند گلی ہے، وہ بلاخر لانگ مارچ شروع کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ لانگ مارچ اسلام آباد آنے سے پہلے ہی رک جائے گا۔ خان صاحب جن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان میں ایک بھی انقلابی نہیں سب نے بار بار وفاداریاں تبدیل کی ہیں۔ فیصل واڈوا جیسے کئی ہیں جو ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔
چالیس سال کے اس سیاسی سفر میں جو میں نے زمانہ طالب علمی سے شروع کیا تھا کہ فوج سیاست سے دور رہے۔ فوج کی سیاست میں مداخلت سے ایک مراعات یافتہ طبقہ امرا نے جنم لیا ہے۔ ایوب خان نے ابتدا کی اور ضیاء الحق اور اس کی باقیات نے اس کی انتہا کی۔ اس طبقہ امرا نے ریاستی اداروں کے ذریعے اپنی حکمرانی قائم کی اور اسی طبقے نے جمہوریت کے خلاف بیانیے کو پروان چڑھایا ہے۔
تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت پڑی ہے، سیکڑوں محب وطن سیاستدانوں کو غداری کے خطابات ملے۔ عدلیہ کو پریشر میں رکھا گیا، وہ کام جو کل تک ٹرپل ون بریگیڈ کرتی تھی وہ کام آئین میں 58(2)(b) ڈال کے کیے گئے اور بعد میں کل جو نظریہ ضرورت کام کرتا تھا ، آج وہ اقامہ جیسے فیصلے اور نیب سے لیے گئے، یہ سب حقیقت ہے۔ اب یہ لوگ تناور درخت کی طرح اتنے پھل پھول گئے ہیں کہ وہ ملک کے لیے، فیڈریشن کے لیے ، ملک کی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔
ہمارے گائوں میں وڈیرہ کس طرح چلتا ہے، جن کو جرم کرنا ہوتا ہے ، وہ وڈیرے کے قریب ہوجاتے ہیں اور وڈیرہ ان کے قریب ہوجاتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں، جب زندگی کا مقصد پلاٹ بنانا ہو تو پھر سب اسی کام سے لگ جاتے ہیں اور یہی پھر ان کا مقصد ہوتا ہے، جس کے لیے وہ اداروں کو استعمال کرتے ہیں۔
خان صاحب کی تو ابھی صرف توشہ خانہ والی کہانی منظر عام پر آئی ہے، ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔ ضرورت پاکستان کو plural اور inclusive رکھنے کی ہے، واپس جناح کی طرح طرف اور جناح کی گیارہ اگست والی تقریر کی طرف لوٹنا پڑے گا، جو تباہی گورنر غلام محمد سے شروع ہوئی، ایوب خان کے دور میں پروان چڑھی اور پھر ضیاء الحق اور مشرف کے دور میں تناور درخت بنی ہے ، اب بلی تھیلے سے باہر نکل آئی اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کے برابر ایک بڑی طاقت بن کے کھڑے ہوتے۔ آج خان صاحب ہمارے اداروں کے خلاف بول کے خود پاکستان کے دشمن لوگوں کا کام کررہے ہیں۔
اس وقت جو بنیادی تضاد ہے وہ یہ ہے کہ ایک طاقتور اورمضبوط قوت چاہ رہی ہے کہ فو ج سیاست میں مداخلت کرے، اس بیانیہ کی بھی حمایت کرے، وہیں افغان پالیسی لے کے چلے، عدلیہ کو پریشر میں رکھے اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اب سمجھ گئی ہے، اس سے یہ ملک اور کمزور ہوا ہے۔ اس کے برعکس باقی جو بھی فورسز جو اس وقت پی ڈی ایم میں بیٹھی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ سول اور ملٹری تعلقات میں توازن آئے اور مضبوط جمہوریت میں تبدیل کیا جائے۔
سوائے ہندوستان کے باقی ماندہ دنیا کی طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں انتشار خود اس سے بھی زیادہ خطرات دنیا کے لیے پیدا کریگا کیونکہ پاکستان ایٹمی حقیقت بھی ہے۔پاکستان ایف اے ٹی ایف والی پابندیا ں ختم ہونے کے بعد دوبارہ بین الاقوامی سطح پر ایک ذمے دار ملک کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ خان صاحب ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں جہاں سے واپس آنا اب بہت مشکل ہے۔