امن و آشتی کا پیغام

سکون ذات کی خود اعتمادی کا نام ہے اور یہ خود اعتمادی خدا کی ذات پر بھروسے کا نتیجہ ہے۔


Shabnam Gul March 27, 2014
[email protected]

لاہور: سکون ذات کی خود اعتمادی کا نام ہے اور یہ خود اعتمادی خدا کی ذات پر بھروسے کا نتیجہ ہے۔ ایک یقین کامل کہ خالق کائنات کی رضا میں اسے اپنے دل کا چین ڈھونڈنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے صوفیوں کے کلام میں ایک مستقل سکون کی کیفیت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ لوگ ان کے فن و فکر سے بصیرت افروز ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ زندگی کے اندھیروں میں انھیں راستہ دکھاتے ہیں۔ فکر لطیف کی بھی یہ خاص بات ہے کہ وہ سب سے پہلے ذات کے سکون کی بات کرتے ہیں۔ انسان جب ذات کی دوئی اور تمامتر تضادات پر قابو پا لیتا ہے تو وہ ابدی سچ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ سچائی اس کی ذات کو ناقابل تسخیر قوت عطا کرتی ہے۔

سُر کلیان رسالے کا پہلا سُر ہے۔ کلیان ایک راگنی کا نام ہے۔ جو سورج غروب ہونے کے بعد گائی جاتی ہے۔ یہ سر سکھ اور خیر کا پیامبر ہے۔ جو کلیان ٹھاٹھ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ اس میں مختلف راگ اور راگنیاں شامل ہیں جن میں ایمن کلیان، چھابانٹ کا مود، شدہ کلیان، بھوپ کلیان، ھمیر، کیدارا، شام کلیان، ساوئی کلیان اور چیت کلیان وغیرہ شامل ہیں۔شاہ عبداللطیف بھٹائی ایک خوبصورت ساز ''طنبورو'' بجایا کرتے تھے۔ موسیقی نہ فقط روح کی غذا ہے بلکہ موسیقی کے سر ذہن پر دباؤ کے منفی اثرات زائل کر دیتے ہیں۔ یہ ماحول کو بھی شفاف بناتی ہے۔ چونکہ موسیقی کے سر اس کائنات میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں اس لیے ساز، فطرت کی مختلف آوازوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ بارش کا نغمہ، بادلوں کی گرج، آبشاروں کا ترنم، لہروں کا آہنگ، پتوں کی سرسراہٹ، ہواؤں کی لے اور پرندوں کی چہچہاہٹ بھی کائنات کے لازوال سروں کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ لطیف کے شعر کی خاصیت لفظوں کا ترنم ہے۔ شعر کی ادائیگی کے وقت لفظوں میں ردم محسوس ہوتا ہے۔ سرکلیان میں سالک وجود سے زندگی اور کائنات تک فاصلہ طے کرتے ہوئے ایک ہی رخ کے مختلف زاویے دریافت کرتا ہے۔

ساجن! کیا کیا روپ ہیں تیرے، درشن لاکھ ہزار

جس سے بھی پیوستہ سائیں! الگ الگ دیدار

تیرے روپ ہزار' کیا کیا دیکھوں صورت

سر کلیان خداوند تعالیٰ کی وحدانیت کا بھرپور اظہار ہے۔ اس کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے روشن رموز و اسرار سے آگہی ملتی ہے۔ شاہ صاحب کائنات کو خدا کا عکس سمجھتے ہیں۔ وہ جس طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو فطرت کا ہر منظر خدا کی ثنا خوانی میں مصروف نظر آتا ہے۔ کائنات کے تمام رنگ قدرت کی مصوری کے حسین فن پارے ہیں جنھیں دیکھنا، محسوس کرنا اور سراہنا بھی ادراک کی قوت کو جلا بخشتے ہیں۔ فطرت کو سوچنا اور ان رنگوں کے توسط سے خالق حقیقی کا کھوج ارتکاز کی صورت ہے۔ یہ یکسوئی کی کیفیت میں طالب کا دل مطلوب کی روح کے ساتھ دھڑکنے لگتا ہے۔ اور وجدان حاصل ہوتا ہے ان لمحوں کے سوز میں، باطن کی آنکھ کھلتی چلی جاتی ہے۔ اور آنکھیں اندھیرے کے پار دیکھنے لگتی ہیں۔

پر تو حسن درست ہے جن پر

ان کے دل روشنی سے ہیں معمور

اپنی دنیا الگ بسائی ہے

خوف و رنج و غم و الم سے دور

شاہ صاحب فطرت کی رعنائی میں راز ازل کو کھوجتے ہیں۔ فطرت جو فراوانی کا جوہر رکھتی ہے۔ بانٹ کر بھول جاتی ہے، بغیر تفریق کے نوازتی ہے، کم وصول کر کے زیادہ لوٹاتی ہے، درخت کی شاخیں کٹ کر بھی دوبارہ پھلنے پھولنے لگتی ہیں اور چھاؤں دیتی ہیں۔ یہ صفات خالق کائنات کی ہیں جو انسان کے دل میں بسیرہ کیے ہوئے ہے۔

خالق حسن کائنات ہے خود

خود ہی اس کائنات کا محبوب

آپ ہی اپنا آئینہ ہے وہ

خود ہی طالب ہے اور خود مطلوب

فطرت جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ محبت بھی جب تک جذب نہیں ہوتی مسیحائی کا ہنر نہیں رکھتی، جو شکایت کر رہا ہے محبت کی کمیابی کی در حقیقت کھوٹ اس کے من میں ہے، جو آداب محبت نہیں جانتا، محبت وجود کی آگہی ہے۔ جو خود کو نہیں پہچانتا وہ وفا کی ریت کیا نبھائے گا۔ شکایت بھی توقع کی صورت ہے جو غرض سے عبارت ہے ۔ صوفی بے غرض محبت کی بات کرتا ہے۔ خلق خدا کے درمیان رہتا ہے۔ دلوں کو تسخیر کرتا ہے اور اس لگن سے اسے عرفان حاصل ہوتا ہے۔ دل کی مٹی اشکوں سے تر نہ ہو تو وجدان بھی حاصل نہیں ہوتا۔ شاہ صاحب سر کلیان کے توسط سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ فطرت کو انسان محسوس کرتا ہے تو اس کا ہر رنگ امن و آشتی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ذات کے انتشار میں کھوئے لوگ فطرت کی آوازیں نہیں سن سکتے لہٰذا انسان کو اپنے اندر کے شور کو خاموش کرنا پڑتا ہے کیونکہ انتشار ذہن کا مغالطہ ہے۔ محض نظر کو دھوکا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اپنے اندر کی آواز کو سنو اور اسے اپنا رہبر بناؤ۔ یہ مت سمجھو کہ کوئی آ کے تمہیں راستے سمجھائے گا۔

وحدہ لاشریک لہ، سنی نہ یہ آواز

کیا تو سمجھ نہ پایا، باطن کا یہ راز

محشر میں دمساز، کوئی نہ ہو گا تیرا

جسے پانی سمجھ کے انسان لپکتا ہے وہ صحرا کا منظر ہے، دھوکا خارجی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی اپنی پہچان کا قصور ہے۔ انسان زندگی میں جن مسائل سے گزرتا ہے، وہ اس کی خود فریبی اور کاملیت پسندی ہے۔ کامل فقط اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا انسان کو حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ یہ من کا میل ہے، جو اسے حقائق تک پہنچنے نہیں دیتا۔ پہلے اسے وجود کا ورق دھونا ہے، جس کے بعد زندگی کے اسرار خودبخود کھلتے چلتے جاتے ہیں۔ اپنے ذہن کو شفاف بنانا ہے تا کہ صاف آئینہ شفاف عکس دکھا سکے۔ پھر ایسا دوست ڈھونڈھنا ہے جو رہنمائی کے جوہر سے آشنا ہو۔

چارہ سازوں میں بیٹھنا سیکھو

پھر نہ ہو گا کبھی کوئی آزار

راس آئے گا ان کا قرب تمہیں

جو بدلتے ہیں فطرت بیمار

اسی مضمون کو مولانا رومی نے یوں ادا کیا ہے:

دیدن دانا عبادت ایں بود

فتح ابواب سعادت ایں بود

یعنی ایک دانا شخص کو دیکھنا بھی عبادت ہے کیونکہ اس طرح آپ کے لیے سعادت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

شاہ لطیف فرماتے ہیں کہ زیادہ تر ایسے لوگ ملتے ہیں، جو سادہ دل لوگوں کو پر فریب باتوں کے جال میں الجھا کر سچائی سے دور کر دیتے ہیں۔ یہ انسان کی تلاش جستجو کا کمال ہے کہ وہ کون سی منزل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بقول مولانا رومی:

تشنہ گان گر آب جو یند از جہاں

آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں

اگر پیاسا پانی کی تلاش میں مارا پھرتا ہے تو پانی بھی پیاسے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

خود فریبی اور توقعات انسان کو تنہا کر دیتی ہیں۔ انسان جو ازل سے تنہا ہے۔ بقول لطیف کے کہ جو یہ حقیقت پا لیتا ہے، وہ اس بے نیازی میں نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان انفرادی سوچ کے حصار سے آزاد ہو کر اجتماعی بھلائی کی طرف مائل ہوتا ہے۔

خلوت روح میں بسا اوقات

عشق خود ان کا چارہ ساز ہوا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں