بچوں کا ادب
ہمارے بچپن میں ہر سرکاری بلکہ پرائیوٹ اسکول میں بھی ایک ہفتہ وار بزمِ ادب کا پیریڈ ہوا کرتا تھا
اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک کی ہمت کی داد دینی چاہیے کہ ایک طرف تو حکومت اسلام آباد کی طرف آنے والے تمام رستے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف اسی ہنگام میں انھوں نے بچوں کے ادب پر ایک سہ روزہ سیمینار کے حوالے سے ملک کے چاروں بلکہ پانچوں صوبوں سے بچوں کے ادب سے متعلق تقریباً ایک سو کے قریب خواتین و حضرات کو نہ صرف اسلام آباد میں مدعو کیا بلکہ حسبِ وعدہ اور اعلان بھرپور پروگرام بھی کیے۔
افتتاحی اجلاس میں میرے اور برادرم محمود شام کے کلیدی خطاب شامل تھے جب کہ اجلاس کے صدر انجینئر امیرمقام اور مہمانِ خصوصی برادرِ عزیز ، عرفان صدیقی تھے جن سے تدریس کے حوالے سے پیٹی بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی سطح پر بھی محبت کا ایک خوشگوار تعلق ہے ہمارے علاوہ اسٹیج پر کلچر کی وفاقی سیکریٹری فارینہ مظہر اور خود یوسف خشک تھے ۔
بچوں کے ادب کے ماضی ، حال اور مستقبل پر جو باتیں بار بار درمیان میں آئیں وہ یہی تھیں کہ آج کے بچوں میں درسی کتب کے علاوہ دیگر کتابیں پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے انگریزی میڈیم کو ذریعہ تعلیم بنانے کی وجہ سے بچوں کے لیے اُردو اور اُن کی علاقائی زبانوں کا ادب ایک غیر متعلق چیزبن کر رہ گئے ہیں، عرفان صدیقی نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ ادب اور ادیب کو چھوڑیں اور پہلے یہ بتائیں کہ وہ بچہ کہاں گیا جوکتاب پڑھتا تھا اور جس کے لیے خاص طور پر ادب لکھا جاتا تھا۔
اب اگر اس گفتگو کے آخری نتیجے کی بات کی جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ انفارمیشن، سوشل میڈیا اور تصویر کاری کے اس دور میں امیر حمزہ ، سند باد جہازی، رابنسن کروسو،حاتم طائی اور طلسم ہوشربا کے انداز میں لکھی گئی کہانیاں شائدآج کا بچہ نہ پڑھے کہ اگرچہ ان میں بھی fantasyاور تخیل پسندی سے کام لیا گیا ہے مگر ان کے مظہر اب پرانے اور غیر دلچسپ ہوگئے ہیں کہ آج کا بچہ روبوٹ، سائنس فکشن، مستقبل آمیز ایڈونچر اور Visual Imagesکی بات زیادہ آسانی سے سمجھتا ہے ۔
جہاں تک تاریخی حوالوں سے بچوں کے ادب کا تعلق ہے لوریوں اور جادو کی کہانیوں سے قطع نظر مغرب سے آنے والے Nursery Rhymes یعنی جیک اینڈ جل اور بابا بلیک شیپ وغیرہ اپنی موسیقیت اور انگریزی زبان کے دباؤ کی وجہ سے آج بھی مقبول ہیں ۔
اسماعیل میرٹھی کی کچھ نظموں اور صوفی تبسم کے ٹوٹ بٹوٹ نے اس علاقے میں کچھ دیر کے لیے اپنی جگہ بنائی مگر اُن کے علاوہ بہت کم لوگ بچوں کے گیتوں کی لفظ و معنی سے بھی ماورا موسیقی کو ٹھیک سے برت پائے اور یوں گھوم پھر کر علامہ صاحب کی دعائیہ نظم ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری''ـ ہی صبح اسکولوں کی اسمبلیوں میں پڑھنے کے لیے رہ گئی ہے۔
نثر میں یہ صورتِ حال اور بھی خراب ہوئی کہ بہت کم لوگوں نے بچوں کے لیے جدید انداز کا فکشن لکھا مرزا ادیب، عزیز اثری اور کچھ اور لوگوں کے ناولوں کو ٹی وی ڈرامے کی شکل میں پیش کیا گیا لیکن زیادہ کامیابی اے حمید کے ''عینک والا جن '' ٹائپ کھیلوں کو ملی جن میں آج کے بچوں کے لیے دلچسپی کا سامان زیادہ اور بہتر تھا ۔
البتہ جہاں تک بچوں کے لیے رسالوں اور اخبارات کے مخصوص گوشوں کا تعلق ہے وہاں صورتِ حال قدرے بہتر رہی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بہت سے ماہوار رسالے مثلاً ''کھلونا''، ''نونہال''، ''بچوں کی دنیا''، ''تعلیم و تربیت''، ''پھول''، ''آنکھ مچولی'' اور ان سے قدرے کم عمر اور کم بہتر آتے ہی چلے گئے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 1990 تک ان کو بیشتر شہری گھروں میں دیکھا جاسکتا تھا لیکن آہستہ آہستہ ان کے پبلشر جن مین کچھ بہت بڑے اشاعتی اداروں کے مالک تھے اس دوڑ سے باہر نکلتے گئے اور یوں نہ تو لکھنے کا شوق اور صلاحیت رکھنے والے بچوں کی دل شکنی ہوئی بلکہ بچوں کے لیے لکھنے والے بڑوں کی تعداد بھی کم ہوتی چلی گئی ۔
اب ایسے میں اکادمی ادبیات کا یہ سہ روزہ سیمینار ہم سب کے لیے ایک Wakeupکال کی طرح تھا کہ جو معاشرہ اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کرتا ہے وہ اصل میں اپنے مستقبل کو نظر انداز کر رہا ہوتا ہے ۔
میں نے اپنی گفتگو میں صاحب صدر اور مہمانِ خصوصی کو یہ بھی یاد دلایا کہ حکومت پیمرا کے ذریعے آئے روز نئے نئے احکامات جاری کرتی رہتی ہے کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمام چینلز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنی چوبیس گھنٹوں کی نشریات میں چوبیس منٹ بچوں کے لیے بھی مخصوص کردیں کہ میری اطلاعات کے مطابق سوائے پی ٹی وی کے میڈیا میں کہیں سے بھی بچوں کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں ہر سرکاری بلکہ پرائیوٹ اسکول میں بھی ایک ہفتہ وار بزمِ ادب کا پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں بچے اپنی ٹوٹی پھوٹی تخلیقات پیش کرتے کرتے بہت کچھ سیکھ جاتے تھے اور اگر وہ آگے چل کر لکھاری نہ بھی بنتے تو اچھے پڑھنے والے ضرور بن جاتے تھے۔
اس بزم ادب سے تربیت پانے والے بے شمار لوگوں میں سے ایک میں خود ہوں کہ جو اپنی نابینا خالہ سے سنی ہوئی کہانیاں سامعین کے مزاج کے مطابق ایڈٹ یا اضافہ کرکے سنایا کرتا تھا جن کی کوکھ سے آگے چل کر ان 78کتابوں نے جنم لیا جن پر بطور مصنف آج میرا نام لکھا جاتا ہے ۔