تنقید برائے اصلاح
سیاست دانوں کے پاس صرف بیانات کے علاوہ اب کچھ نہیں ہے
کالم نگار اگر کسی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے تو ہمارے سرکاری اور نجی اداروں کو چاہیے کہ وہ مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، کیونکہ بحیثیت کالم نگار مسائل کو اجاگر کرنے کا واحد مقصد اداروں کی توجہ مبذول کروانا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں کوئٹہ سے ایک خاتون قاری نے مجھے SMS کیا کہ میں روزنامہ ''ایکسپریس'' کا مطالعہ باقاعدگی کرتی ہوں اور یہ اخبار اپنی مثال آپ ہے جو لوگوں کے مسائل پر خوبصورتی سے روشنی ڈالتا ہے۔ آپ نے شہر میں پارکنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس پر ضرور روشنی ڈالیں۔
غیر تعلیم یافتہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اس کا سدباب ہونا چاہیے نکلنے والے تو پروٹوکول میں نکل جاتے ہیں ہم کہاں جائیں جنھیں پروٹوکول مل رہا ہے انھیں تو ہم نے ووٹ کے ذریعے یہ اعزاز دیا ہے اب یہ تکلیف دہ مسائل کو حل کیوں نہیں کرتے؟ اخبار کی قاری خاتون کی بات سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے۔
دراصل کراچی سے لے کر خیبر تک پارکنگ کے حوالے سے قوم تنگ آچکی ہے کراچی پاکستان کا بڑا شہر ہے صرف بڑا شہر ہے باقی کچھ بھی نہیں ہے ''بس بڑا شہر ہے نام ہی کافی ہے'' گزشتہ دنوں میں نے صدر کے علاقے میں گاڑی کھڑی کی، ایک انتہائی بدتمیز نوجوان جو پاکستانی نہیں تھا غیر ملکی تھا۔
اس نے مجھ سے بدتمیزی کی، مزے دیکھیں کہ پارکنگ میں کام کرنے والے 70 فیصد لوگوں کے پاس نہ تو شناختی کارڈ ہوتا ہے نہ حکومت کے پاس ان کا کوئی ڈیٹا ہوتا ہے۔
یہ لوگ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں کچھ پتا نہیں۔ یہ لوگ زبردستی پیسے وصول کرتے ہیں پرچی پر کچھ جگہوں پر تو کچھ نہیں لکھا ہوتا صرف پارکنگ فیس کا تذکرہ ہوتا ہے پوش علاقوں میں پرچی پر لکھا ہوتا ہے کہ گاڑی اپنی ذمے داری پر کھڑی کریں اگر ہمیں گاڑی اپنی ذمے داری پر کھڑی کرنی ہے تو پھر پارکنگ فیس کس بات پر لے رہے ہیں؟ اب ذرا اس لطیفے پر بھی غور کریں کہ جہاں پارکنگ فیس لی جا رہی ہے وہاں جگہ جگہ ٹھیلے کھڑے ہیں مگر گاڑی والا غیر قانونی ہے۔
اس لیے کہ وہ سالانہ ایکسائز ٹیکس دیتا ہے بس اس کا جرم یہ ہے آپ کو حیرت ہوگی اور میرے قارئین دن رات اس مرحلے سے گزرتے ہوں گے کہ ایک ٹھیلے والا آپ کو گاڑی کھڑی نہیں کرنے دیتا اور بدتمیزی سے کہتا ہے ''گاڑی ہٹاؤ یہاں سے۔'' یہ حال کچھ کاروباری حضرات کا ہے دنیا بھر کے بورڈ اپنے کاروبار کے حوالے سے دکان کے سامنے کھڑے کردیتے ہیں اگر آپ گاڑی کھڑی کریں تو باجماعت آ جاتے ہیں کہ ''گاڑی ہٹاؤ یہاں سے'' کہاں ہیں بلدیہ عظمیٰ کے لوگ وہ کیوں نہیں ایکشن لیتے یہ ان کا کام ہے۔
کتنا بدنصیب ہے اس ملک کا شہری کہ 20 لاکھ سے 1 کروڑ کی گاڑی رکھنے والے کو ایک جاہل جو ڈیلی ویجز پر کام کرتا ہے انتہائی بدتمیزی سے کہتا ہے گاڑی ہٹاؤ یہاں سے دفعہ ہو جاؤ۔ یہ علامت اچھی نہیں ہے ملک کی بیورو کریسی اس پر توجہ دے۔ پانی کو ناک سے نیچے ہی رہنے دیں بلدیہ عظمیٰ کراچی اس پر خصوصی توجہ دے کہ اس ملک میں جمہوریت ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ کسی کی تذلیل کرے خاص طور پر تعلیم یافتہ بہت مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔
اس قسم کے رویوں سے۔ پچھلے دنوں پارکنگ پر بدتمیزی کے دوران پارکنگ والے نے ایک C.A اور FRCS ڈاکٹر کو دھکا دیتے ہوئے کہا کہ ''گاڑی کا پہلے پیسہ دو۔'' انھوں نے کہا '' گاڑی کھڑی ہے آ کر دوں گا۔'' پارکنگ والے نے ان دونوں کو دھکا دیا اور کہا دفعہ ہو جاؤ۔ یہ علامات بہت خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔
بلدیہ عظمی کار اور موٹرسائیکل کی باقاعدہ رسیدیں بنوائے تاکہ لوگ مطمئن ہو کر پارکنگ دیں یہ کیسا انصاف ہے کہ خالی رسید پر 60 روپے پارکنگ لکھا ہے اور کچھ نہیں۔ کون ہیں یہ لوگ ،یا ریاست سے زیادہ طاقت ور ہیں یہ لوگ؟ میں پھر عرض کر رہا ہوں کہ بلدیہ عظمیٰ سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ دے، بہت ہوگئی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر جاہلوں کی حکومت۔ سیاسی بیانات نے دماغ کی رگوں کو کچل کر رکھ دیا ہے، گزشتہ دنوں ایک بڑے معزز سیاستدان فرما رہے تھے کہ نوجوان ہی ملک کو جاگیرداروں سے آزاد کرا سکتے ہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کے پاس صرف بیانات کے علاوہ اب کچھ نہیں ہے اور بچکانہ بیان دے کر قوم کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں قوم کے مسائل تو گئے بھاڑ میں۔ ان کی اپنی روٹی روزگار کے مسائل نہ ختم ہونے والے ہیں۔ ارے جناب! نوجوان تو 30 سال سے نوکری تلاش کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے (جن میں ہم بھی شامل ہیں) اور آج کے نوجوان کو آپ جاگیرداروں سے نمٹنے کا سبق دے رہے ہیں اور یہ نوجوان بھی بے روزگاری کے مسائل سے نمٹتے نمٹتے بوڑھے ہوجائیں اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔
پچھلے دنوں بھارتی عدالت نے دوران سماعت خواتین وکلا سے زلفیں نہ سنوارنے کا حکم دیا کہ اس سے کام میں خلل پڑتا ہے ارے جناب! ایک دفعہ توہین عدالت کا حکم جاری کردیں پھر دیکھیں زلفیں تو کیا استرا پھروا کر آئیں گی ویسے تو خواتین کی زلفیں ہی تو محفل کی رونق ہوتی ہیں۔ اب بھارتی عدالت کے جج صاحب کو ان زلفوں کے حوالے سے استاد قمر جلالوی کا ایک شعر ضرور عرض کردیتے ہیں کہ شاید میری بات ان معزز جج صاحب کے دل میں اتر جائے اور خواتین وکلا بھی ہمیں دعا میں یاد رکھیں:
یہ کھلی کھلی زلفیں انھیں لاکھ تم سنوارو
میرے ہاتھ سے سنوارتی تو کچھ اور بات ہوتی
دن رات موبائل پر خواتین کے چھاتی کے کینسر کے بارے میں آگاہی ہو رہی ہے اور ہر وقت یہی ٹیپ چلتا رہتا ہے کہ آپ اپنا معائنہ خود کریں۔ گٹھلی ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ دن میں اتنی مرتبہ یہ جملہ آن ایئر ہوتا ہے کہ اب تو مرد بھی دن میں تین مرتبہ چیک کرتے ہیں اپنے آپ کو کہ خیریت تو ہے۔
اب آتے ہیں مسئلے کی طرف۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاتون چھاتی کے کینسر میں (رب نہ کرے) مبتلا ہو جاتی ہیں، صاحب حیثیت ہیں تو دوسری بات ہے، پوری قوم تو صاحب حیثیت نہیں ہے، غریب گھرانے کی خاتون اگر اس مرض میں مبتلا ہو جائے تو حکومت کی طرف سے چلنے والے اس اشتہار میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ ہر شہر میں 3 اسپتال ہیں جن کے نام یہ ہیں کینسر کی صورت میں آپ یہاں سے اپنا علاج مفت کروا سکتی ہیں۔
ریاست صرف آگاہی کی ذمے داری انجام دے رہی ہے اس کے سدباب کے بارے میں نہیں بتا رہی۔ اگر کوئی خاتون اس مرض میں مبتلا ہو جائیں تو جو بڑے اسپتال ہیں وہ چھاتی کے کینسر کا علاج لاکھوں میں کر رہے ہیں۔ جو روٹی سے محروم ہیں وہ یہ علاج کیسے کرائیں گے۔ بھئی! سوچا ہے ان سیاسی حضرات نے اور جو خواتین وزرا ہیں نہ انھوں نے کوئی آواز اٹھائی اس مسئلے پر۔ بس یہ سیاسی حضرات سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اعلیٰ کام کر رہے ہیں یہی تو ان کی خام خیالی ہے۔ اس دفعہ کا الیکشن صرف اور صرف اہلیت پر ہوگا۔