عزت یا غیرت کیا چیز ہے
احادیث کے ذخیرہ میں بیسیوں واقعات ہیں جن میں غیرت کے دینی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے
''میرا جسم میری مرضی '' کے بعد اب مارکیٹ میں ایک نیا نعرہ لگایا جارہا ہے کہ ''عزت یا غیرت کیا چیز ہے؟ ''
اس حوالے سے اس طبقہ کاموقف یہ ہے کہ غیرت بے حد موضوعی تصور ہے جو پدرسری نظام سے وابستہ ہے اور اس کا مقصد عورت پر مکمل اختیار حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہناہے کہ غیرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو قاتل بنا دیتی ہے اس کی تعریف کو کچھ ایسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے جیسے احترام، اہلیت اور سماجی رتبہ کسی معاشرے کا مجموعی لیبل ہیں جس کی ضامن عورتیں اور نگران مرد ہوتے ہیں۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ غیرت لوگوں پر پابندیاں عائد کرتی ہے اور اس سے انحراف کی سزا موت ہو سکتی ہے۔
اس انحراف کی وجوہات تقریباً ہمیشہ اس عورت کے گرد گھومتی ہیں جو آزادی چاہتی ہے۔ اسے خودکار طریقے سے خاندان کے مردوں سے ٹکر سمجھا جاتا ہے۔اسی طبقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خاندان کی بڑی بوڑھیاں غیرت کے اسی تصور میں اس قدر ڈوبی ہوتی ہیں کہ وہ نوجوان خواتین کو خاندان کی ناموس کا تحفظ کروانے کے لیے بیک وقت فعال اور غیر فعال کردار ادا کرتی ہیں۔
اسی ناموس نے اب تک بہت سی خواتین کی جانیں لی ہیں ۔ یہ طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ غیرت کے نام پر صرف عورت کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد نہیں کی جاتیں، بلکہ عورت کی جنسیت پر بھی پہرے کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔
اس طبقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیرت کا یہ غلط تصور تمام برصغیر میں پایا جاتا ہے اور اس کا تعلق کسی ایک مذہب، ثقافت یا معاشی طبقے سے نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں پانچ ہزار کے قریب عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں، جن کی بڑی تعداد پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔
اس طبقہ کے نقطہ نظر کے بعد اب آئیے غیرت کا جذبہ اور اس کی شرعی حدود کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں ۔ ''غیرت'' عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔
ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے۔ اسلامی تعلیمات سے واقفیت رکھنے والے یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اسلام نے غیرت کو صفات حمیدہ میں شمار کیا ہے۔
غیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس شخصیت کے ساتھ محبت ہو اس کی کسی درجہ میں بھی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن القیم کے بقول جس شخص کو جس شخصیت کے ساتھ جس قدر محبت ہو اسی قدر اسے اس پر غیرت آتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، قرآن کریم، اورحضرت نبی اکرمﷺ کی بے حرمتی پر ایک مسلمان سب سے زیادہ طیش میں آتا ہے کہ بحیثیت مسلمان اس کی محبت سب سے زیادہ انھی کے ساتھ ہوتی ہے۔
چنانچہ غیرت محبت کی علامت بھی ہے کہ جس کے ساتھ جتنی محبت ہوگی انسان اس پر اتنی ہی غیرت کھائے گا۔اللہ تعالیٰ، قرآن کریم، اور رسول اکرم ﷺکے بعد غیرت کا مظاہرہ جس چیز پر سب سے زیادہ ہوتا ہے وہ میاں بیوی کا تعلق ہے اور عصمت و عفت کے باہمی تعلقات کا تحفظ ہے۔ اس کے بارے میں غیرت کے اظہار کے بیسیوں واقعات احادیث کے ذخیرے میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ اس حوالہ سے خود حضرت نبی اکر م ﷺ اور ازواج مطہرات کے متعدد واقعات ہیں جو اسلامی تعلیمات میں اس جذب صادقہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ سورۃ الاحزاب کی یہ آیت نازل ہوئی:''اے پیغمبر! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیجیے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکا کر رکھا کریں۔''غیرت کا تعلق مرد و عورت دونوں سے ہے۔ اسلام نے دونوں کا یہ حق مساوی تسلیم کیا ہے کہ اگر دوسرا فریق ان کے خاص حق میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو وہ اس پر غصہ کا اظہار کرے اور اس پر احتجاج کرے۔ حتیٰ کہ کسی مرد کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان بیویوں کا یہ حق بھی اسلام میں تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ باہمی معاملات کے توازن میں کوئی فرق محسوس کریں تو اس کا اظہار کریں۔
نبی اکرمؐ نے غیرت کو نہ صرف اچھا جذبہ قرار دیا ہے بلکہ اس کا احترام بھی کیا ہے۔ اپنے گھر کے ماحول میں عصمت و عفت کے ماحول کو قائم رکھنا اور پردہ داری کے تقاضوں کا لحاظ کرنا گھر کے سربراہ کی ذمے داریوں میں شمار کیا گیا ہے۔
احادیث کے ذخیرہ میں بیسیوں واقعات ہیں جن میں غیرت کے دینی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے مگر جس طرح انسان کے دوسرے اوصاف اور خصلتوں کی حدود بیان کی گئی ہیں اسی طرح جناب نبی اکرمؐ نے غیرت کے جائز اور ناجائز پہلوؤں کی بھی نشاندہی کی ہے اور اس کی حدود بیان فرمائی ہیں۔ کسی سبب اور وجہ کے ظاہر ہونے پر اگر غصہ اور غیرت کا اظہار کیا جائے تو بجا ہے مگر بلاوجہ اور بلاسبب خواہ مخواہ غیرت کا اظہار درست نہیں ہے، جو حقوق عورت کو شریعت نے دے رکھے ہیں انھیں غیرت کے نام پر ان سے روکنا درست نہیں ہے۔
الغرض غیرت ایک اچھا جذبہ ہے جو نہ صرف ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرتا ہے بلکہ عورت اور مرد کے عفت و عصمت کے نظام اور خاندانی ماحول کے تقدس کا محافظ بھی ہے۔ البتہ اس کے اظہار اور استعمال کی حدود بھی متعین ہیں کہ غیرت کے نام پر نہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے اور نہ ہی عورتوں کو ان کے شرعی حقوق سے محروم کر دینے کا کوئی جواز ہے۔