ہیلووین پارٹی یا دکھ کی کہانی
جب خلوص اور محبت سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما جائے تو کوئی بھی کسی دوسرے کو گرنے سے پہلے ہی تھام لیتا ہے
ساؤتھ کوریا میں ہونے والی ہیلووین پارٹی نے سیول کے ضلع ایٹاون میں ایک خونی کہانی رقم کر دی۔
کووڈ 19 کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب وہاں کے نوجوانوں نے اس خوبصورت دن کو یاد گار بنانے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن یہ یاد کسی اور طرح سے ماضی میں محفوظ ہوگئی جب ایٹاون کی تنگ گلیوں میں گزشتہ ہفتے کی شب نوجوانوں نے اس رات کو تفریح کے شور میں اس قدر پرجوش کردیا کہ کندھے سے کندھا مچل رہا تھا۔
سب ایک دوسرے سے اس قدر نزدیک تھے کہ جیسے باآسانی ہلنے کی بھی گنجائش نہ تھی۔ کووڈ کے پچھلے چند سالوں نے اس ملک اور شہر میں اتنا وبال مچایا تھا کہ اب اس سال جیسے کھل کر موج مستی کرنے کا موقعہ ہاتھ لگا تھا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے رش بڑھتا گیا مسکراتے چہرے دور سے لفظوں کی صورت میں آنے لگے۔ یہ قربت اس قدر بڑھی کہ لوگوں کی چیخیں بند ہونے لگیں اور یہ شدت اتنی تھی کہ جیسے ان سے نکلنا مشکل ہو رہا تھا۔
تقریباً پندرہ منٹ تک وہ یوں ہی چیختے رہے اور پھر کسی نے حرکت کرنے کی کوشش کی، کوئی آگے کی جانب بڑھا اور کوئی پیچھے کی جانب۔ انسانوں کے اس آگے اور پیچھے دھکیلتے ہجوم کے بیچ وہ بے بس اور مجبور نوجوان جوشیلے تھے جو اس میں چکی کی مانند پستے چلے گئے، کچھ ایک کے اوپر ایک گرتے گئے تو نیچے دب جانے والوں کے بارے میں خبر ہی نہ رہی کہ وہ اپنے اوپر انسانوں کے انبار کے نیچے سانس بھی لے رہے ہیں یا ان کا دم گھٹ چکا ہے اور بہت سے اپنی جانیں بچانے نزدیکی عمارتوں پر چڑھے اور اس دھکم پیل میں زخمی ہو بیٹھے۔
یوں ڈیڑھ ہزار سے زائد اپنی جانوں سے گئے جب کہ پانچ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ابھی تک تین ہزار سے زائد لاپتا افراد ۔ہیں اس بھگدڑ میں مقامی افراد کے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دوسرے ممالک سے اس پارٹی میں شمولیت کے لیے آئے تھے۔ بہت سے افراد کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے کیونکہ کم عمر ہونے کے باعث ان کے پاس اپنے شناختی کارڈ نہ تھے۔
ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب لوگ اس میلے میں شرکت کے لیے آئے تھے جو 2020 کی عالمی وبا کے بعد اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے۔متاثرین کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ اس بڑے میلے کے لیے حفاظتی انتظامات اور دیگر حوالوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا جس کے باعث یہ انتہائی ناخوشگوار حادثہ پیش آیا۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہجوم میں پولیس بھی شامل تھی تو وہ کہاں تھی؟ یہ جاننا بہت دشوار تھا کہ کون پولیس فورس سے ہے اور کون عام عوام۔
اس خوف ناک حادثے کی ابتدا ایٹاون کے ہملٹن ہوٹل کے ساتھ ایک نسبتاً تنگ گلی سے ہوئی ہے جو ڈھلان پر تھی جہاں نوجوانوں نے دیکھتے ہی رش پکڑنا شروع کردیا تھا۔ پولیس نے ابتدائی طور پر اس رش کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اختیار عوام کے سامنے چھوٹ چکا تھا اور یوں یہ حادثہ پیش آیا۔
23 سالہ چوجو اس حادثے سے فرار ہو کر محفوظ تھی کا کہنا تھا کہ لوگوں نے مختلف ملبوسات پہن رکھے تھے، بہروپ بھرے تھے لہٰذا اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کون پولیس فورس سے ہے؟ کیونکہ پولیس آفیسر خود چیخ رہے تھے کہ لوگ باقاعدہ پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ واقعی پولیس آفیسر ہو؟
ساؤتھ کوریا کے صدر یون سک یول نے اتوار کو فوری طور پر ایمرجنسی میٹنگ بلائی اور متاثرہ مقام کا دورہ کیا جب کہ ان کے وزیر اعظم ہان ڈک سو نے قوم سے اس اندوہناک واقعے پر خطاب کیا اور پانچ نومبر کی شب تک سوگ منانے کا اعلان کیا۔
ہر سال یہ پارٹی یا میلہ سجایا جاتا ہے جو عام طور پر اکیس اکتوبر کو منایا جاتا ہے اس کی تقریب میں جائیں تو یہ بچوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے جب کہ اسے نوجوان طبقہ بڑے جوش و خروش سے مختلف طرح کے سوانگ بھر کے مناتے ہیں، یہ سوانگ خوفناک ہوتے ہیں اور اس طرح یہ ایک دوسرے سے اپنی ثقافت چھپا کر دوسرا چہرہ چڑھاتے ہیں، گو اسے مذہبی حیثیت بھی حاصل ہے لیکن اب اسے تفریحی انداز میں بھی منایا جاتا ہے۔ کچھ عقائد کے مطابق خیال ہے کہ جو لوگ مر چکے ہیں ان کی روحیں اپنے گھروں کو لوٹیں گی۔
اسلام میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں ہے جب کہ دیگر مذاہب میں اس طرح کے عقائد کو ایک میلہ، پارٹی یا تفریحی دعوت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس تیز رفتار زندگی میں لوگ اس قدر ہیجان خیز ہو چکے ہیں کہ ان کے لیے اس طرح کی تھرل پارٹیز دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔
کئی ممالک میں مختلف طرح کے میلہ جات میں ایک جیسے ملبوسات پہن کر یا ایک جیسے رنگ کے کپڑے پہن کر مختلف سبزیاں یا پھلوں کو ایک دوسرے پر اچھال کر لطف اندوز ہوتے ہیں، کوئی اپنے دانت نکلوا کر اس طرح کے میلے منا کر خوش ہوتے ہیں تو بہت سے بیلوں سے لڑ کر اپنے آپ کو بہادر مشاق ثابت کرتے ہیں، جسے بل فائٹنگ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اسی طرح کا ایک میلہ بھارت میں بھی سجتا ہے جہاں جوان، نوجوان، بوڑھے، مرد اور خواتین کھلی سڑک پر قطار در قطار زمین پر اوندھے پڑے نظر آتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں ایک بھیانک منظر ابھرتا ہے جب ان زندہ نفوس پر دوڑتی بھاگتی گائیں روندتی ہوئی بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بقول معتقدین کہ اس طرح ان کے گناہ دھل جاتے ہیں اور ان کے نصیب کھل جاتے ہیں، ان کے کام ہو جاتے ہیں غرض جو بھی اچھا سمجھنا چاہیں ہو جاتا ہے۔
دنیا کے اس میلے میں جتنی روشنیاں اتنے ہی اندھیرے بھی ہیں، ہم سب اپنے اپنے حصے کی امید کی شمع روشن کرتے ہیں اور ناکام ہو جانے پر اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہمارے مسائل، اسباب اور رکاوٹیں اس قدر بلند ترین محسوس ہوتی ہیں کہ ان کا سنبھالنا اور ان سے نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔
بالکل اس ساؤتھ کوریا کے ہیلووین کے میلے کی طرح جب لوگ ایک کے اوپر ایک سوار اس بھگدڑ سے نکلنے کے لیے کوشاں تھے، پر انھیں کوئی راستہ نظر نہ آ رہا تھا، گو وہ اپنے ہی شوق و ذوق سے اس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ آخر یہ کیا ہے؟
ہم اپنی ہی امیدوں اور خوشیوں کے گرداب میں کیسے الجھ جاتے ہیں، یہاں تک کہ ہماری سانسیں رکنے لگتی ہیں اور پھر تھم جاتی ہیں۔ نوجوانوں کا یہ میلہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے، سمجھاتا ہے کہ جوش و خروش میں ہمیں اخلاق کا ساتھ نہیں چھوڑنا، ایک دوسرے کو دھکا دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ اس طرح میرے ساتھ والا یا آگے والا گر سکتا ہے اور اس سے آگے والا متاثر ہو سکتا ہے جیساکہ اس ہجوم میں ہوا کہ ایک کے ساتھ دوسرا بھی اس افراتفری کا شکار ہوتا گیا۔
اتحاد میں برکت ہے کہ جب خلوص اور محبت سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما جائے تو کوئی بھی کسی دوسرے کو گرنے سے پہلے ہی تھام لیتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے عوامی مقامات پر دھکم پیل سے لوگوں کے زخمی ہونے اور بھگدڑ کی خبریں سننے میں آتی ہیں۔ بس احتیاط اور خلوص لازم ہے کہ اخلاق کا دامن کبھی نہ چھوڑیے کہ یہ انسان کو گرنے سے بچاتا ہے۔