یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار

کیا نفرت، بد امنی، دنگا اور جنگجوئی ہمارے ڈی این اے کا جزوِ ناگزیر ہے؟


Tanveer Qaisar Shahid November 07, 2022
[email protected]

نیویارک کو دُنیا کا ''معاشی دارالحکومت'' (Financial Capital of the World) کہا جاتا ہے ۔نیویارک کا ایک حصہ ''بروکلین''کہلاتا ہے ۔ اِسی علاقے میں ''لٹل پاکستان'' بھی آباد ہے۔

معاش اور امن کے متلاشی ایشیائی مہاجرین بکثرت '' بروکلین''میں آباد ہیں ۔ ''بروکلین'' ہی کے آخری کونے پر ''جیکسن ہائٹس'' کے نام سے ایک کاروباری علاقہ ہے جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی و بھارتی نژاد امریکی کاروباری افراد بروئے کار ہیں۔جب راقم نیویارک میں تھا، ہر اتوار کی صبح اپنے وطنی دوستوں کے ساتھ ''جیکسن ہائٹس'' جا کر دیسی ناشتہ کرنا ایک معمول تھا۔

ناشتے کے بعد وہیں ایک مشہور ہندو کی دکان سے پاکستانی و بھارتی اخبارات و جرائد بھی خریدنے کو مل جاتے تھے۔ایک صبح دوستوں کے ساتھ جب مَیں ایف ٹرین لے کر ''جیکسن ہائٹس'' اُترکر مطلوبہ ریسٹورنٹ کی جانب رواں تھا، میرے ایک دوست نے اچانک بازُو سے پکڑ کر مجھے ہیجانی لہجے میں کہا: '' صوفی جی، ایہہ ویکھو''۔دوست سڑک کے فرش کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ مَیں نے ہڑ بڑا کر سڑک کو دیکھا اور حیرت زدہ رہ گیا۔

وہاں کسی نے سیاہ سپرے کے ساتھ ایک مسلمان مسلک کے خلاف( انگریزی اور اُردو میں) نعرے پینٹ کر دیے تھے ۔ میرے پاکستانی دوست نے افسردگی سے کہا:'' لیجیے، ہماری نفرتیں یہاں بھی پہنچ گئی ہیں ''۔

اِس واقعہ کو کئی سال گزر گئے ہیں ۔ سوچا تھا ، وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی باہمی نفرتیں ( مذہبی اور سیاسی ) دَم توڑ جائیں گی اور مغربی ممالک میں ان نفرتوں کی منتقلی بھی رُک جائے گی ۔

یہ سوچ محض ہماری خام خیالی تھی۔ ہماری مذہبی و سیاسی نفرتیں مزید بڑھ گئی ہیں اور اِنہوں نے امریکا، کینیڈا اور برطانیہ کے بے مسلک ، لبرل اور سیکولر ماحول کو بھی متاثر کر دیا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے مَیں چھٹی مرتبہ دو ہفتوں کے لیے امریکا گیا ۔

ابھی مَیں نیویارک ہی میں تھا کہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد امریکی، مساجد کے قبضے پر لڑ پڑے۔ یہ لڑائی اتنی بڑھی کہ دونوں دھڑوں نے( مسجد کے اندر) ایک دوسرے کے سر پھوڑ ڈالے اور فرشِ مسجد خون سے رنگین ہو گیا۔نتیجے میں نیویارک پولیس (NYPD)نے مسجدکو تالہ لگا دیا۔یہ افسوسناک سانحہ بروکلین کے علاقے ''میکڈانلڈ ایونیو'' پر پیش آیا۔

اِسی میکڈانلڈ ایونیو پر عرب کمیونٹی کی وہ مسجد بھی تھی جہاں مشہور نابینا مصری خطیب اور مبلّغ،شیخ عمر عبدالرحمن ،امریکیوں اور امریکا کے خلاف مسلمانوں کو نفرت کا درس دیتے اور انھیں امریکا کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کا وعظ ''فرمایا'' کرتے تھے۔ آخر ایک روز شیخ عمر دہشت گردی کے کئی سنگین الزامات میں گرفتار ہُوئے، مقدمہ چلا، لمبی سزا ہُوئی اور کچھ عرصہ بعد پھر وہ امریکی جیل ہی میں دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ مَیں نے خود اِس مصری عرب نابینا عالم کی امامت میں کئی جمعتہ المبارک ادا کیے ہیں ۔

بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور غریب عرب ممالک کے عسرت زدہ لوگوں نے اپنی غربت اور شدید محتاجی مٹانے کی خواہش میں امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں پناہ لی۔ ان ممالک نے وسیع القلبی کے ساتھ ان معاشی مہاجرین کو پناہ بھی دی، شہریت بھی دی اور معاشی دستگیری بھی کی ۔ اب برسوں کے بعد جب ان کمیونٹیز کی ہڈیوں سے غربت و عسرت نکل گئی ہے اور رَج کھانے کے بعد اُن کی آنکھوں میں خوشحالی کا خمار اُترا ہے تو یہ ایک دوسرے کو مذہب، مسلک، سیاست اور جغرافیائی تعصبات کی تلوار سے ذبح کرنے پر تُل گئے ہیں ۔

یہ مقامی شہریوں کا جینا بھی حرام کررہے ہیں۔یہ ایشیائی معاشی مہاجرین امریکا، کینیڈا اور برطانیہ پہنچے تو اپنی جملہ نفرتیں اور تعصبات بھی ساتھ ہی لے گئے۔

مثال کے طور پر ستمبر2022کے تیسرے ہفتے لندن کے ایک مضافاتی علاقے (لیسٹر) میں بھارتی و پاکستانی نژاد برطانوی ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے پر دھاوا بول دیا ۔ کئی زخمی ہُوئے اور کئی گرفتار۔ وجہ کیا تھی؟ کرکٹ کا کھیل، جس نے شدتِ جذبات میں مذہبی جنوں کا رنگ پکڑ لیا ۔ لندنی مسلمانوں نے'' لیسٹر '' کے مندروں پر حملہ کیا اور لندنی ہندو، مسلمانوں کی مساجد پر پِل پڑے۔ مقامی گورے برطانوی سر پکڑے حیران اور پریشان مذکورہ دونوں متحارب دھڑوں کو دیکھ کر اُن لمحات کو کوس رہے ہیں جب اِنہیں اس ملک میں پناہ دی گئی تھی ۔

کیا نفرت، بد امنی، دنگا اور جنگجوئی ہمارے ڈی این اے کا جزوِ ناگزیر ہے؟ کیا جیو اور جینے دو کی صلح جویانہ پالیسی پر عمل کرنا ہمارے ضمیر اور خمیر کا حصہ نہیں بن سکتا؟ ہم جہاں جاتے ہیں۔

اپنی مذہبی نفرتیں اور سیاسی مخالفتیں بھی ساتھ ہی کیوں لے جاتے ہیں؟ہم پچھلے تین ، چار برسوں سے مسلسل یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ لندن میں ہماری ایک سیاسی جماعت کے وابستگان سابق وزیر اعظم ، میاں نواز شریف، کی رہائش گاہ کے باہر نامناسب انداز میں مظاہرے کررہے ہیں ۔ بیہودہ زبان میں مخالفانہ نعرے بھی لگاتے ہیں ۔ جواباً دوسری جماعت کے وابستگان اور کارکنان بھی ''میدان'' میں آ نکلے ہیں۔

دونوں کا کئی بار تصادم ہو چکا ہے ۔ ستمبر 2022 کے آخری ہفتے وزیر اطلاعات ، محترمہ مریم اورنگزیب، کے ساتھ لندن میں ایک سیاسی جماعت کے پاکستانی نژاد برطانوی وابستگان نے جو بیہودہ سلوک کیا ، اس نے ہم سب کے سر شرم سے جھکا دیے۔ اِن تماشوں نے لندنی پولیس کو بھی حیران و پریشان کررکھا ہے ۔

کئی بار نون لیگ اور پی ٹی آئی کے شوریدہ سر وابستگان گرفتار ہو کر لندنی حوالاتوں کی ہوا بھی کھا چکے ہیں ۔ باز مگر یہ نہیں آ رہے ۔یہ مفت کھانے (برطانوی حکومت کے دیے گئے گزارہ الاؤنس) کی مستیاں ہیں ۔ ان بد مستوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی تھی لیکن ، بقول رانا ثناء اللہ خان ، مریم اورنگزیب صاحبہ نے، پاکستان کے وسیع تر مفاد میں، اِنہیں معاف کر دیا۔

سعودی عرب حکومت نے بھی اُن کم فہم پاکستانیوں کو سزائیں اور جرمانے سنائے جنھوں نے مدینہ شریف کی مسجدِ نبوی کے پاک و محترم حرم میں پاکستانی وزیر اطلاعات ( مریم اورنگزیب صاحبہ) اور دیگر وزرا کے خلاف دل آزار نعرے لگائے اور بیہودہ حرکات کیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے، سعودی بادشاہ سے خصوصی گزارش کرکے، ان سزا یافتگان کو معاف کروا دیا ہے ۔

لیکن لندن میں مقیم نفرت و جہالت کا یہ پرچارک ٹولہ پھر بھی باز نہ آیا۔ 6اکتوبر2022کو جب نون لیگ کی نائب صدر ، محترمہ مریم نواز شریف، پاکستان سے لندن پہنچیں تو اِس ٹولے نے مریم نواز صاحبہ کے خلاف بھی نعرے بازی کی ۔ ہیتھرو ائر پورٹ پر بھی اور ایون فیلڈ میں نواز شریف کی قیام گاہ کے باہر بھی۔ یوں دونوں دھڑوں میں ہلکا سا تصادم بھی ہُوا ، اور لندنی پولیس کو ایک بار پھر یہ تماشہ دیکھنے کو مل گیا۔

چند دن پہلے،14اکتوبرکو، جب وزیر خزانہ، اسحق ڈار، آئی ایم ایف حکام سے مذاکرات کرنے واشنگٹن ُپہنچے توائر پورٹ پر موجود ایک سیاسی جماعت کے بعض پاکستان نژاد امریکیوں نے اسحق ڈار کے خلاف نامناسب الفاظ میں نعرے بازی کی ۔

اور اب 3نومبر2022 کو وزیر آباد کے نزدیک جناب عمران خان پر حملہ اور مبینہ آور (نوید ولد بشیر) کا خوفناک اعتراف۔ یا خدایا، نفرت میں ہم کہاں تک آ پہنچے ہیں؟ بقول حبیب جالب، اب ہماری سیاسی و قومی بقا اِسی میں ہے : ''یہ نفرتوں کی فصیلیں، جہالتوں کے حصار / نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے سامنے۔'' اگر ہم نفرتوں کی یہ فصیلیں نہ گرا سکے تو یاد رکھیں ہم بحیثیتِ قوم مزید پستیوں اور ذلتوں میں گر جائیں گے !

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔