گلوبل وارمنگ اور پاکستان

موسمیاتی تبدیلیوں نے جہاں دنیا کو چکرا کر رکھا ہے وہیں پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے


محمد عارف میمن November 08, 2022
موسمیاتی بحران پر قابو پانے کےلیے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی اجلاس مصر میں منعقد ہوا، جس میں دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق رپورٹس کا باریکی سے جائزہ لیا گیا۔ ان رپورٹس کے مطابق سمندر کی بلندی میں تیزی سے اضافہ، گرمی کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا اور صنعتی آلودگی سے فضائی آلودگی میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ یو این کی رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ 2050 تک دنیا کے مشہور اور یونیسکو کی فہرست میں درج گلیشیئرز کا نام ونشان مٹنے والا ہے۔

عالمی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق 2022 کی مکمل رپورٹ 2023 کے موسم بہار میں جاری ہونے والی ہے، لیکن عارضی مطالعہ COP27، اقوام متحدہ کی آب و ہوا کی کانفرنس سے پہلے سامنے لایا گیا، جس میں ان مسائل سے آگاہی اور حل کےلیے عالمی رہنماؤں کے متحد ہوکر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ موسمیاتی بحران پر قابو پانے کےلیے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں بتایا گیا کہ گرمی جتنی زیادہ ہوگی، اثرات اتنے ہی بدتر ہوں گے۔

اس موقع پر ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹر تالاس نے کہا ''ہمارے پاس اب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اتنی زیادہ سطح ہے کہ پیرس معاہدے کی نچلی 1.5 ڈگری بمشکل ہی پہنچی ہے۔ بہت سے گلیشیئرز کےلیے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے اور پگھلنے کا عمل ہزاروں سال تک نہیں بلکہ سیکڑوں تک جاری رہے گا، جس کے پانی کی حفاظت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ وہ چند نکات ہیں جو اس کانفرنس میں پیش کیے گئے۔ شاید کانفرنس ختم ہونے کے بعد تمام ممالک کے رہنما اپنے اپنے وطن واپس جاکر کچھ نہ کچھ اس پر کام ضرور کریں گے تاہم پاکستان سے اس حوالے امید رکھنا بے وقوفی ہوگی۔ وزیراعظم کی واپسی کے بعد انہیں دھرنوں، مظاہروں اور عمران خان کی گولی پر بریفننگ دی جائے گی۔ وزیراعظم کو ریاست کے بجائے سیاسی عزائم پر ڈٹے رہنے کی تلقین کی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ آپ کی حکومت کن کن لوگوں کی مرہون منت ہے لہٰذا پہلے ان مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ باقی دنیا اس پر کام کررہی ہے آپ اس پر سوچ کر خود کو ہلکان نہ کریں۔ اس سال سیلاب سے ہونے والی تباہی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ لاکھوں افراد جو بے گھر ہوئے انہیں سماجی اداروں نے سنبھال رکھا ہے۔ اس پر ریاست کو توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے جہاں دنیا کو چکرا کر رکھا ہے وہیں پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔ دنیا اس پر توجہ دے رہی ہے، اپنی غلطیوں کو سدھارنے میں مصروف ہے لیکن ہم اس سے بری الزمہ ہیں۔ ہم درختوں کی اہمیت سے ہی ابھی تک درست انداز میں آگاہ نہیں ہوسکے۔ ہم کارخانے بنانے میں لگے ہیں مگر ہم انہیں یہ نہیں بتاتے کہ اس کے کچھ حفاظتی اقدامات بھی ہیں جن کی ضمانت لازمی ہونی چاہیے۔ فیکٹریاں اپنا زہریلا فضلہ آج بھی برساتی اور سیوریج نالوں کی نذر کررہی ہیں جس سے وہ زہریلا مواد بغیر ری سائیکلنگ کے سیدھا سمندر میں جارہا ہے اور اس سے سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہم سمندری صفائی تک کا خیال نہیں رکھ پا رہے۔ ہمارے محلوں اور گلیوں میں کوڑا کرکٹ جابجا بکھرا پڑا ہے اور ایک شریف آدمی رات یا دن کے اوقات میں اسے آگ لگا کر سوچتا ہے کہ میں نے نیکی کا کام کردیا۔

پاکستان اس وقت دنیا کا ڈسٹ بن بنا ہوا ہے جہاں دنیا بھر کا گند لاکر پھینکنے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس میں ہمارا کسٹم ڈپارٹمنٹ انتہائی محنت سے کام کررہا ہے جو بغیر جانچ پڑتال اور ماحولیاتی اداروں کی اجازت کے بغیر ہی اسے گھر میں لانے میں مصروف عمل ہے۔ اس سے جہاں ہمارے ماحول کو تو نقصان پہنچ ہی رہا ہے وہیں یہ ہمارے ماحول کو بھی مزید آلودہ کررہا ہے۔ لیکن یہ ہماری دردِ سر نہیں۔

کچھ عرصہ قبل جب لنڈا کے کپڑوں سے بھرے کنٹینر کو اسپرے کیا گیا تو اس سے اطراف کی آبادی میں خطرناک نتائج برآمد ہوئے۔ اس پر مقدمہ بھی درج ہوا لیکن وہ سب ہم بھول چکے ہیں۔

ہم سڑکوں کی استرکاری کے فوراً بعد ہی اسے دوبارہ اکھاڑ دیتے ہیں، جس سے فضائی آلودگی میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے مگر دوسری طرف انسانی جانوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے تاہم ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ درخت لگانے کا عمل تو آج تک بہتر انداز میں شروع نہیں کیا گیا لیکن کٹائی کا عمل ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

اس وقت ہم آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں کہ خطرہ ہمارے سروں سے ٹل چکا ہے مگر ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کینسر سے بھی زیادہ خطرناک حد تک پھیلے گی، جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ جس کی مثال ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیماریوں پر دی ہے جہاں دست، اسہال، ملیریا، ڈینگی جیسی وبائیں اب عام ہوچکی ہیں۔

پانی کی قلت پر ہمارے اپنوں نے بھی الارم بجا دیا ہے مگر ہم اس پر بھی کوئی توجہ دینے کے بجائے سکون سے بیٹھ کر بانسری بجا رہے ہیں۔ سورج کی شعاعیں زمین پر براہ راست نہیں پہنچ رہیں، ہمیں اس پر بھی کوئی فکر نہیں۔ ہماری کاشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، ہمیں اس کی بھی فکر نہیں۔ ہم صرف معاہدوں پر دستخط کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پورا کردیا مگر ان معاہدوں کی روشنی میں اس پر عمل کرنے سے بالکل قاصر ہیں۔

اب بھی اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں پر کام شروع نہ کیا تو 2050 تو بہت دور ہے 2030 میں ہی ہم ایک ایک لقمے اور ایک ایک گھونٹ پانی کےلیے قتل وغارت کرتے نظر آئیں گے۔ اور یہ سب ہماری اپنی نالائقی کا نتیجہ ہوگا اور اس پر ہم آج کی طرح کسی کو قصوروار بھی نہیں ٹھہرا سکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔