ہم کہاں کھڑے ہیں
ہم پرحلوہ کھانے والے مسلط چلے آرہے ہیں اورجب کوئی افتاد پڑتی ہے تووہ اپنابوریا بسترسمیٹ کرایوان اقتدارسے نکل جاتے ہیں
یہ کوئی چند برس کی بات نہیں بلکہ پون صدی کا قصہ ہے لیکن اس قصے میں ہم پاکستانی عوام کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھتے کیونکہ ہمیں قصے کہانیاں ہی سنائی گئی ہیں، عملاً کوئی کام نہیں کیا گیا البتہ پون صدی میں ایک کام بڑی تندہی سے کیا گیا ہے وہ عوام کو بے وقوف بنانے کا کام ہے۔
اس میں بلاتفریق ہر حکمران کامیاب رہا ہے حکمرانی چاہے سویلین ہو یا فوج کی عوام کو تسلی دلاسوں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا گیا ہے بلکہ اقتدار میں آکر تسلیوں ، دلاسوں اور وعدوں سے بھی انکار کر دیا جاتاہے۔
سیاست کاکوئی بھی فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جوگندے کپڑے گھر کے اندر دھونے چاہئیں وہ بیچ چوراہے دھوئے جا رہے ہیں، دنیا ہمارا تماشہ دیکھ رہی ہے اور ایک ایٹمی ملک کا مذاق اڑایا جارہا ہے، دشمن کے ہاںشادیانے بج رہے ہیں اور ہم نہ کھیلیں گے اور نہ ہی کھیلنے دیں گے کی ضد لگائے بیٹھے ہیں۔ الغرض اب کہنے کو کچھ رہ نہیں گیا۔
ہر پاکستانی جو کچھ اپنے گردو پیش میں دیکھ اور سن رہا ہے، اس کی وجہ سے خوف کا شکار ہے۔ ایک بے بسی کا عالم ہے جو قوم پر طاری ہے اور قوم گنگ ہو کر اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھ رہی ہے ۔
قیام پاکستان کے وقت جن لوگوں نے علیحدہ وطن کے لیے قربانیاں دیں، وہ ان قربانیوں کے ساتھ اب اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور ہم جیسے ناشکرے زندہ رہ گئے ہیں جن کو پلیٹ میں رکھ کر ایک آزاد وطن مل گیا۔
ہمیں آزادی کی اس قدرومنزلت کا اندازہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ان مشکل وقتوں میں شریک سفر ہی نہیں تھے، وہ سر فروش لوگ تھے جنھوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کر دیا اور اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنا دیا۔ لیکن یہ نئی مملکت وہ ایسے لوگوںکے سپرد کر گئے جو اس کے قابل ہی نہیں تھے، ان نااہل اور بے رحم لوگوں نے اس ملک کے ساتھ وہی کچھ کیا جس کی ان سے توقع تھی۔
انھوں نے پون صدی کے اس سفر میں ملکی وسائل کو اپنے گھر کی باندی بنا لیا جب اور جیسے چاہا ان کو بے دریغ استعمال کیااور یہ صورتحال آج بھی جاری و ساری ہے، اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں،کسی کے ہاتھ پاکستان کے لوٹ کے مال سے خالی نہیں ہیں، سب کے ہاتھ پاکستان کے ارمانوں کے خون لتھڑے ہوئے ہیں۔
کس کس چیز کا ماتم کریں اور کس کو قصور وار ٹھہرائیں کہ سب ایک ہی طرف نظر آتے ہیں، دوسری طرف عوام ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں اوروہ صرف واہ واہ کرنے کے لیے اس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں۔ استاد امام دین گجراتی کے بقول
دو ہی گھڑیاں عمر بھر میں مجھ پر گزری ہیں کٹھن
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
لیکن افسوس کہ ہم پر تو گھڑیوں سے بھی بات آگے نکل گئی اور دوچار برس کی بات نہیں رہی بلکہ پون صدی کا طویل قصہ ہے جو ہم پر بھاری ہی گزرا ہے اور ابھی دکھوں اور مصائب کے جانے کی گھڑی ٹلنے کے آثار دور دور تک نظرنہیں اتے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔
معلوم یوں ہوتا ہے کہ ترقی معکوس کا سفر ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے اور ہم دو قدم آگے بڑھنے کے بجائے چار قدم پیچھے کا سفر طے کر رہے ہیں اور یہ سفر تیزی سے جاری ہے ،کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
سب اس فقیر کی طرح ہیں جو صبح سویرے ایک شہر میں داخل ہوا تو عوام نے اسے کندھوں پر اٹھا لیا، وہ حیران پریشان ہو گیا اور لوگوں سے استفسار کیا تو فقیر کو بتایا گیا کہ ان کے بادشاہ کا انتقال ہو گیا ہے اور عوام نے یہ فیصلہ کیا کہ جو بھی شخص صبح سویرے شہر میں داخل ہو گا اسے اپنا بادشاہ بنا لیں گے۔لہٰذا آپ آج سے ہمارے بادشاہ ہیں۔
یوں فقیرکو شاہی لباس پہناکر تخت نشین کر دیاگیا۔فقیر جس کا بادشاہی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اس نے عقلمندی کی کہ اپنا پرانا اور بوسیدہ لباس ایک گٹھڑی کی صورت میں لپیٹ کر محفوظ کر لیا۔ فقیر کو حلوے کا شوق تھا، اس نے پہلا حکم جاری کیا کہ عوام کے لیے حلوہ پکایا جائے۔
عوام خوش ہو گئی ، عوام اور جی بھر کر کھاتے رہے اور جب دشمن کی فوجیں اس کے قلعے کے دروازے پر پہنچ گئیں تو وزیر نے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے تو اس نے کہا کہ میری گٹھڑی لائی جائے۔ فقیر نے شاہی لباس اتارا ، فقیرانہ لباس پہن کر شہر سے یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے ،آپ اپنے شہر کی حفاظت خود کریں۔
تو ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ ہم پر حلوہ کھانے والے مسلط چلے آرہے ہیں اور جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ایوان اقتدار سے نکل جاتے ہیں اور ہم عوام کو بے یارومددگار چھوڑ جاتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے ، بقول غالب
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی