اسلام آباد کا محاصرہ

آج کیا ہو رہا ہے ؟ پنجاب پولیس اور پنجاب حکومت اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کو روک نہیں رہی ہے


مزمل سہروردی November 09, 2022
[email protected]

پاکستان تحریک انصاف نے دوبارہ لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ابھی اسلام آباد پر چڑھائی کی تاریخ اور شیڈول تو نہیں دیا گیا تاہم اسلام آباد جانے والی سڑکوں کو بند کر کے اسلام آباد کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والی سڑک بند کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما پرویز خٹک نے بھی اعلان کیاہے کہ کے پی سے اسلام آباد جانے والی تمام سڑکیں بند کر دی جائیں گے۔

پرانے دورمیں دارالسلطنت پر حملہ سے قبل اس کا محاصرہ کیا جاتا تھا۔ بلکہ کسی بھی شہر پر حملہ کرنے سے پہلے حملہ آور فوجیں شہر کا محاصرہ کر لیتی تھیں۔ شہر کو خوارک کی ترسیل بند کر دی جاتی تھی۔ شہر سے باہر نکلنے اور شہر میں داخل ہونے کے راستے بند کر دیے جاتے تھے۔ اس طرح شہر میں لوگ محصورہوکر رہ جاتے تھے۔

فوج محصورہو کر رہ جاتی تھی۔شہر کے اندرسے فوجیں باہر نکلنے پر مجبور ہو جاتیں اور اس طرح جنگ لڑی جاتی تھی۔ محاصرہ کسی بھی جنگ کا پہلا قدم ہوتا تھا۔ جتنا کامیاب محاصرہ ہوتا تھا، جنگ جیتنے کے اتنے زیادہ امکانات ہوتے تھے۔ لیکن یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے محاصرہ جنگ کا اعلان سمجھا جاتا تھا اور اس کے بعد پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔

لیکن ایک ہی ملک میں ایک دوسرے کے محاصرے کی مثال نہیں ملتی۔ بغاوت کی صورت میں تو تاریخ میں مثالیں ملتی ہیں، لیکن ایک جمہوری ملک میں، آئین و قانون سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کے محاصرہ کی مثال نہیں ملتی ہے۔ محاصرہ کوئی فرینڈلی فعل نہیں ہوتا بلکہ یہ جنگی حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔

کوئی دوستانہ محاصرہ نہیں ہوتا بلکہ یہ دشمنی کی پہچان ہے۔ لیکن جدید جمہوری ادوار میں اب محا صروں کا رحجان ختم ہو گیا ہے۔ لوگ ووٹ سے اپنی حکومت منتخب کر سکتے ہیں، اسے ہٹا بھی سکتے ہیں، اس لیے بغاوت کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔

آئینی حقوق نے سب کی حدود کو متعین کر دیا ہے۔ اب محاصروں کا دور ختم ہو گیا، جدید تاریخ میں محاصروں کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

عمران خان کیا چاہتے ہیں، وہ لانگ مارچ دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ نہیں دے رہے۔ وہ یہ نہیں بتا رہے کہ وہ اسلام آباد کب پہنچ رہے ہیں۔ ان کے لانگ مارچ کو اسلام آباد پہنچنے میں کتنے دن لگیں گے۔ یہ نا قابل فہم ہے۔

وہ ملک کو کب تک ایک بحرانی کیفیت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب انھوں نے اب نئی حکمت عملی کے تحت اسلام آباد آنے والی سڑکیں بند کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کیا آئین پاکستان میں اس کی اجازت ہے۔ احتجاج کی اجازت ہے لیکن کس حد تک یہ اہم سوال ہے۔

یہ درست ہے کہ اسلام آباد کے چاروں طرف عمران خان کی حکومتیں ہیں۔ لیکن یہ کوئی مغلوں کا دور نہیں کہ چاروں طرف آپ کی حکومت ہے، اس لیے چڑھائی اور محاصرہ آپ کا حق ہے۔کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کے سر پر وہ وفاقی حکومت پر چڑھائی کا حق رکھتے ہیں؟ کیا صوبائی حکومتیں وفاق کے محاصرے اور چڑھائی پر سہولت کار کا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ کیا یہ پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے رکھے گا۔

یہ درست ہے کہ اٹھارہو یں ترمیم کے تحت مکمل صوبائی خود مختاری دے دی گئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس قدر صوبائی خود مختاری کے بعد وفاق کمزور ہو گیا ہے لیکن کیا کمزور وفاق کا یہ مطلب ہے کہ صوبے وفاق پر حملہ کر دیں۔ کمزور وفاق کا یہ مطلب تو نہیں کہ وفاق کا محاصرہ کر لیا جائے۔

آج کیا ہو رہا ہے ؟ پنجاب پولیس اور پنجاب حکومت اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کو روک نہیں رہی ہے۔ لاہور میں گورنر ہاؤس کے گیٹ پر آگ لگانے کا واقعہ ہو یا فیض آباد سے اسلام آباد پر چڑھائی کی بات ہو پنجاب حکومت تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی نظرآرہی ہے۔

جب مظاہرین کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، انھیں فری ہینڈ دیا جا ئے گا ، اسلام آباد جانے والی سڑکیں بند کر دی جائیں گی اور صوبائی حکومتوں کی مشینری خاموش تماشائی بنی رہے گی تو ایسے کیا کہا جائے گا۔ یہ پاکستان کے نظام حکومت کو زمین بوس کرنے کے مترادف ہے۔ یہ جمہوریت کی بھی نفی ہے۔ یہ آئین پاکستان کی بھی نفی ہے۔

یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ سانحہ وزیر آباد کے بعد عمران خان اور تحریک انصا ف کی جانب سے دی جانے والی احتجاج کی کال پر کتنے لوگ شریک ہو ئے۔ سڑکیں ضرور بند کی گئیں۔ لیکن سڑکیں چند درجن لوگ بھی بند کر لیتے ہیں بشرطیکہ پولیس انھیں نہ روکے۔

ایک افسر کے ضلع میں جب سڑکیں بند تھیں تو میں نے ان سے فون پر پوچھا کہ کتنے لوگ ہیں تو اس نے ہنستے ہوئے کہ لوگ تو دو درجن بھی نہیں ہیں، لیکن سڑک بند کر کے بیٹھے ہیں لیکن حکم ہے کہ انھیں تنگ نہیں کرنا۔

لاہور گورنر ہاؤس کے گیٹ کو آگ لگوانے کے وقت بھی مظاہرین کی تعداد کوئی زیادہ نہیں تھی۔ کہیں بھی ایسا نہیں تھا کہ مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں ہو۔ کہیں بھی ایسا نہیں تھا کہ کہا جا سکے کہ عوام کا سمندر احتجاج کے لیے نکل آیا ہے۔

ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ وفاقی حکومت ایسے آپشن پر غور کر رہی ہے کہ اسلام آباد آنے والی سڑکوں کو کھلوانے کے لیے رینجرز، ایف سی اور موٹر وے پولیس کو استعمال کرے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کو جڑواں شہر کی حیثیت حاصل ہے۔

لاکھوں لوگ روزانہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ دونوں شہر کے درمیان رابطہ توڑنا اسلام آباد کو مفلوج کرنے کی کوشش ہے۔ راولپنڈی میں عمران خان کی حکومت ہے، اس لیے وہ راولپنڈی کو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ کونسی جمہوریت ہے۔ اسکول کے بچوں کے گھر پہنچنے میں دشواری کی خبریں سامنے آنے کے بعد راولپنڈی میں اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ سڑکیں کھلوانے کے بجائے اسکول بند کیے جا رہے ہیں۔

کے پی کی بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں بھی اسلام آباد آنے ولی سڑکیں بند کی جا رہی ہیں۔ موٹر وے بند کی جا رہی ہے۔ ٹول پلازہ بند کیے جا رہے ہیں۔ پشاورمیں احتجاج کے دوران ایسی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن کو افسوسناک کہا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ سے اسلام آباد کی سڑک بھی بند کی جا رہی ہے کیونکہ درمیان میں پنجاب کی حدود آتی ہے۔

جب تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سے ایئر پورٹ کی سڑک بند کرنے پر سوال ہوا تو انھوں نے کہا کیا حکومت نے ملک سے بھاگنا ہے جو انھیں ایئرپورٹ کی سڑک بند ہونے پریشانی ہے۔ سوال حکومت کا نہیں، سوال ہزاروں مسافروں کا ہے جو روزانہ ہوائی جہاز سے اسلام آباد آتے ہیں، وہ ائرپورٹ سے کیسے اسلام آباد پہنچیں گے۔ سڑک بند ایئر پورٹ بند اور محاصرہ کسے کہتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کیا وفاق واقعی اتنا کمزور ہے ؟ اس جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں۔ وفاق کے پاس بہت سے ادارے ہیں جو صرف وفاق کے ماتحت ہیں۔ جب وفاق نے انھیں استعمال کرنا شروع کیا تو صوبائی حکومتوں کا اپنی رٹ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے ایسا موقع ہی نہیں آنا چاہیے کہ انتہائی اقدام اٹھانا پڑ جائے لیکن کون سمجھائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔