قومی خدمت
وطن عزیز آج گوناگوں مسائل اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے،
وطن عزیز آج گوناگوں مسائل اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے، پے درپے رونما ہونے والے حوادث اور درپیش چیلنجوں نے 18 کروڑ عوام کو قلبی و ذہنی اضطراب، فکرمندی، پریشانیوں اور اعصاب شکن ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، جہالت، پسماندگی اور ناانصافی و نارسائی کے دکھ کیا کم تھے کہ دہشت گردی، قتل و غارت، قانون شکنی، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، لوگوں کی گمشدگی اور خواتین کی بے حرمتی، آبروریزی اور خودسوزی کے واقعات نے عوام کا رات دن کا سکون غارت کر رکھا ہے، لیکن بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ مذہب، عقیدے، صوبے اور زبان کی بنیاد پر ہونے والی تقسیم اور نفرتوں کے ماحول نے حالات کو مزید سنگین، گمبھیر، پیچیدہ اور ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی بنا دیا ہے۔
انتہا پسندی، فرقہ واریت، تنگ نظری، عقیدے و مسلک کی تفریق، نظریات کے ٹکراؤ اور منتقمانہ مزاجی نے کراچی تا خیبر آگ و خون اور نفرت و انتقام کی ایسی گہری لکیر کھینچ دی ہے جس کے باعث پاکستان کا معاشرہ دو واضح انتہاؤں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب انتہا کے طالب، شدت پسندی کے متمنی اور مخصوص مذہبی نظریات کا حامل قدامت پسند طبقہ ہے تو دوسری جانب روشن خیال، جدت پسند، باشعور و تازہ امکانات سے ہم آہنگ جمہوریت پسند طبقہ ہے اور ہر دو طبقات کے درمیان ایک دوسرے پر غالب آنے کا ''مقابلہ'' جاری ہے جس نے سیاسی، صحافتی، مذہبی اور عوامی حلقوں کو بحث و مباحث کے بخار میں مبتلا کر دیا ہے۔
گھر، دفتر، بازار، ہوٹل، دکان، محفل غرض جہاں چند افراد جمع ہو جائیں تو ملک کے داخلی معاملات سے لے کر خارجی مسائل تک دوبدو ٹکرائو شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے پریشان کن حالات میں ملک میں امن کے مستقل قیام، عوام کے جان و مال کے تحفظ، عزت و آبرو کی حفاظت اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے حکمرانوں کی نیم دلانہ کوششیں بھلا محرومیوں و مایوسیوں میں گھرے عوام کے آنگنوں میں خوشیوں و امیدوں کے پھول کیسے کھلا سکتی ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ کمیٹی درکمیٹی بنانے کے باوجود مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کا کوئی امکان حسب توقع نظر نہیں آتا اور نہ ہی مستقل امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آتا ہے۔
صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کے باعث 18 کروڑ عوام میں بے یقینی، مایوسی اور بددلی پھیل رہی ہے، اسے روٹی روزی کی فکر لاحق ہے، بچوں کی تعلیم کے اخراجات، مکان کا کرایہ، ماہانہ راشن کی خریداری، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کے بھاری بھرکم بوجھ اٹھا کر چلنا عام آدمی کے لیے عذاب جان بن گیا ہے۔ اسے خطرہ ہے کہ حکومت کی منہ زور نجکاری پالیسی کے جھٹکے لگنے سے اگر بے روزگاری کے چنگل میں پھنس گیا تو روح و بدن کا رشتہ ٹوٹنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ عام و غریب آدمی کو یقین ہے کہ تحفتاً ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالروں کی بارش سے حکومت کے معاشی ویرانے میں تو بہاریں آ جائیں گی لیکن فاقوں کی فصل بھی کاٹنا پڑے گی۔ تھر اور چولستان کے قحط زدگان کے کچے مکانوں کے صحن میں بھی ڈالروں کی بارش کا کوئی چھینٹا نہیں گرے گا، انھیں خار مغیلاں پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔
حکمرانوں کی بے حسی و لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ اس ملک کی 50 فیصد سے زائد آبادی کا حامل طبقہ یعنی ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی سڑکوں پر آ کر اپنے مسائل کے حل کے لیے احتجاج اور خودسوزیاں کر رہی ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، حوا کی بیٹیوں کی حرمت و عزت کے تحفظ اور ان کے آئینی و قانونی حقوق کی حفاظت کا ارباب اقتدار کو کوئی خیال نہیں۔ چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہو رہا ہے، حوا کی بیٹیاں سر بازار بے آبرو کی جا رہی ہیں اور حکمران شبستانوں میں خوابیدہ ہیں۔ کیا قصور تھا مظفر گڑھ کی طالبہ کا؟ یہی کہ وہ علم کی دولت حاصل کرنے کا شوق رکھنے والی لیکن غریب و نادار والدین کی بیٹی تھی جسے دنیا کی دولت رکھنے والے وحشی درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر دولت کے بل بوتے پر قانون کو خرید لیا۔ غیرت مند اور حساس لڑکی خود سے ہونے والی ناانصافی، حکمرانوں کی بے اعتنائی اور ظلم و زیادتی کے دکھ برداشت نہ کر سکی اور خود سوزی کر کے ابدی نیند سو گئی۔
لاہور کے نواحی علاقے صدیق آباد کی غربت و افلاس سے مجبور ماں کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے 4 معصوم بچوں کے شکم کی آگ بجھانے کے لیے حکمرانوں پر اعتماد کر بیٹھی اور دادرسی کے لیے مثالی علاقے میں پہنچ گئی۔ لیکن اسے ملنے نہیں دیا گیا اور ان کا شاہانہ قافلہ پورے کروفر کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ دل برداشتہ و مایوس عورت اپنے بچوں کے شکم کی آگ تو نہ بجھا سکی لیکن خود کو آگ کے بے رحم شعلوں کی نذر کردیا۔ ان دونوں مظلوموں نے قانون، انصاف، معاشرے، ایوان اقتدار اور اسلام کے علمبرداروں اور سماجی انصاف کے ٹھیکیداروں اور خواتین کے حقوق کے پاسداروں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ کیا ان کے لواحقین کو انصاف مل سکے گا؟ جواب کون دے گا۔
یہ محض ایک دو واقعات ہیں جو تیز رفتار میڈیا کے باعث عوام تک پہنچے لیکن آج بھی ملک کے پسماندہ و ناخواندہ طبقوں میں حوا کی بیٹیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے ایسے رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی مثال شاید زمانہ جاہلیت میں بھی کم ہی ملے گی۔ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے روح فرسا مظالم کی روک تھام کے لیے نہ صرف ارباب اقتدار بلکہ معاشرے کے ہر طبقہ فکر بالخصوص علمائے کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن مفتیان دین اور مشائخ عظام و مذہبی اسکالرز پر مشتمل ہماری اسلامی نظریاتی کونسل نے مذکورہ تمام مسائل پر توجہ دینے کی بجائے دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی سے اجازت لینے کو غیر اسلامی اور نابالغ بچوں کی شادی کی اجازت کو جائز قرار دے کر ملک میں بحث کا نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ اراکین کونسل کے اخباری بیانات سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ کونسل قرون اولیٰ کے قوانین و رسم و رواج کو اسلام کے نام پر نافذ کرانا چاہتی ہے، حالانکہ کونسل تمام قوانین کا جائزہ لے کر اپنی 2008ء کی خصوصی رپورٹ میں نابالغ بچوں کی شادی کی ممانعت اور مسلم عائلی قوانین سمیت تمام موجودہ رائج قوانین کی 90 فیصد تعداد کے بارے میں تسلیم کرچکی ہے کہ یہ اسلام کے منافی نہیں ہیں۔
پھر آج اپنی پہلی رپورٹ سے متضاد موقف اختیار کرنے کے پس پردہ کیا ''مقاصد'' ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل 1973ء کے آئینی کے تحت حاصل اختیارات کی روشنی میں 1997ء میں اپنی فائنل رپورٹ پیش کر چکی ہے۔ اپنے آئینی فرائض کی تکمیل کے بعد کونسل کی افادیت اور ضرورت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک مشاورتی ادارہ ہے لیکن اس کے غیر منطقی بیانات سے عوام الناس کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے۔ ان کے بیانات اور سفارشات سے عام آدمی ذہنی خلفشار کا شکار ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور حکومت کے تمام ادارے عام آدمی سماجی، معاشرتی و معاشی مسائل حل کرنے کی جانب بھی سنجیدہ توجہ مرکوز کریں قیام امن کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں، عام لوگوں تک روزگار و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ کیا مذہب، عقیدے، زبان اور صوبے کی بنیاد پر نفرتوں، بغاوتوں اور تقسیم کے شعلوں کو ہوا دینا ''قومی خدمت'' قرار دیا جا سکتا ہے؟