مالاکنڈ میں آپریشن
تحریک انصاف کی حکومت کا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ محمود خان جن کا تعلق سوات سے ہے وہ سوات آنے کو تیار نہیں ہیں
مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن نہ کیا جائے۔ طالبان جنگجوؤں پر قابو پانے کے لیے پولیس کو بااختیار کیا جائے۔ لوئردیر میں بزرگوں، سیاسی جماعتوں کے عہدیدار اور سول سوسائٹی کے ارکان ایک عظیم جرگہ میں جمع ہوئے۔
مالاکنڈ ڈویژن کے بزرگوں کی جماعت دیر قومی پاسیون (Dir Qaumi Passon)) کے زیر اہتمام اس بڑے جرگہ میں سوات، لوئر دیر، بونیر اور چترال سے تعلق رکھنے والے بزرگوں، سیاسی کارکنوں اور این جی اوز کے اراکین نے شرکت کی۔
اس جرگہ میں متفقہ طور پر منظور کیے جانے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی ادارے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی نشاندہی کریں اور ان عناصر کا پتہ چلایا جائے ۔
معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جائے اور ریاستی ادارے معصوم شہروں کی ٹارگٹ کلنگ میں مصروف حلقوں اور انتہاپسندوں کی بیخ کنی کریں۔
جرگہ کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں سول ادارو ں کو مکمل اختیارات دینے چاہئیں۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے افسران بااختیار ہوں گے تو وہ دہشت گردی کے خاتمہ میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جرگہ کے شرکاء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ Grand Jirga عظیم جرگہ میں مالاکنڈ ڈویژن کو برابر کی نمائندگی دی جائے تاکہ مقامی طور پر پید اہونے والے مسائل جلد حل ہوجائیں اور اس خطہ میں مستقل امن قائم ہوسکے۔
جرگہ کے شرکاء نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں امن اور ترقی کے لیے اصلاحات نافذ کی جائیں۔ اس جرگہ کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں امن آرمی (مقامی) کا قیام فوری ضرورت ہے۔
جرگہ کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ خطہ کی ترقی کے لیے تمام افراد کی کوششوں کا ہونا ضروری ہے۔ جرگہ کے شرکا ء کا واضح مو قف تھا کہ اس پورے خطہ میں امن و امان کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے اور ریاست کا فرض ہے کہ شہری کی جان اور ان کی زندگی کا تحفظ اور شہری کے تجارتی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔
اس جرگہ میں شرکت کرنے والے بعض باشعور شہریوں کی رائے ہے کہ پورے مالاکنڈ میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ سوات، دیر اور مالاکنڈ کے دیگر علاقوں میں پولیس اور سول انتظامیہ اختیارات سے محروم ہے۔ گزشتہ صدی کے اختتام پر مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔
ان عناصر نے سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے شروع کیے۔ ان انتہاپسندوں نے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ صوفی محمد کی شریعت نفاذ تحریک سے وہ پاکستانی زیادہ متاثر ہورہے تھے جو طالبان کے بیانیہ سے متفق نہیں تھے، پھر ملا فضل اﷲ کا ظہور ہوا۔
ملا فضل اﷲ صوفی محمد کے داماد تھے۔ ملا فضل اﷲ نے اپنے جنونی نظریات کی ترویج کے لیے ایف ایم ریڈیو کی مدد سے زہر اگلنا شروع کیا۔ ملا فضل اﷲ نے اپنی تقاریر سے عورتوں کو گرویدہ بنانا شروع کیا۔ وہ کھلم کھلا عورت کی تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کے حق کی مخالفت کرتے تھے۔ وادئ سوات کی ان پڑھ عورتوں نے اپنے زیور اور نقدی سب کچھ نذرانہ کے طور پر پیش کیا۔ ملا فضل اﷲ نے سڑکوں پر عدالتیں لگانا شروع کیں۔
انھوں نے مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے عالموں اور گدی نشین پیروں کی گردنوں کو کاٹ کر چوراہوں پر لٹکا دیا۔ عورتوں کے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔
اسی طرح عورت سے روزگار کا حق چھین لیا گیا۔ صرف لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں کو اسپتالوں میں کام کرنے کی اجازت ملی۔
یہ لیڈی ڈاکٹر اور نرسیں مکمل طور پر شٹل کاک برقع میں ملبوس ہوتی تھیں۔ اسی طرح وہ پاکستانی شہری جو مسلمان نہیں اس علاقہ میں ان کی سرگرمیوں کو محدود کردیا گیا اور ان افراد پر ایک نیا ٹیکس جزیہ نافذ کیا گیا اور مخصوص یونی فارم طے کیا گیا۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ سوات میں پولیس کے سربراہ نے ان جنگجو سرگرمیوں کے سامنے آنے پر پشاور میں صوبائی حکام سے ان عناصر کے خاتمہ کے لیے آپریشن کی اجازت مانگی تھی مگر صوبائی حکام نے اجازت نہیں دی تھی، یوں ملا فضل اﷲ اور ان کے پیروکار طاقتور ہوتے چلے گئے اور پوری ریاست کا انتظام سنبھال لیا۔
سوات اور ملحقہ علاقوں میں جنگجوؤں کی سرگرمیاں بڑھنے سے سیاحت کی معیشت کمزور ہوگئی۔ اسی طرح دیگر تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی تھیں، پھر ایک آپریشن ہوا۔ اس آپریشن سے پہلے مقامی آبادی کو ضلع مردان میں منتقل کردیا گیا۔
جرم کے ارتکاب کے بغیر لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، پھر ایک فوجی آپریشن ہوا۔ سوات میں زندگی معمول پر آئی اور سوات میںسیاحوںکی آمدورفت شروع ہوئی۔ تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں تیز ہوئیں۔
جنگجو ادھر ادھر پناہ گاہوں میں چھپ گئے ' ہر طرف رونقیں لوٹ آئیں اور لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ۔ اب یہ سمجھا جانے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگجو کمزور ہو جائیں گے اور حکومتی رٹ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی ' اب جو بھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرے گا وہ منہ کی کھائے گا۔
گزشتہ سال افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے افغانستان کی سرحد غیر محفوظ ہوگئی۔امید کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد حالات میں بہتری آئے گی اور دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں ناکام ہو جائیں گے 'امن کی صورت حال جو جنگجوؤں کی کارروائیوں کے باعث خراب ہو چکی تھی پھر سے بہتر ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا اور سوات میں طالبان نے پھر سے ٹارگٹ کلنگ شروع کردی۔
مالاکنڈ ڈویژن میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ خواتین کو کام پر نہیں جانا چاہیے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے کھل کر طالبان کی حمایت کی اور طالبان جنگجوؤں کو ہر قسم کے مواقع حاصل ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں گزشتہ سال طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں پاکستانی طالبان کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے پاکستانی طالبان سے مذاکرات شروع کیے۔
ان مذاکرات کی آڑ لے کر بہت سے جنگجو اس علاقہ میں واپس آگئے، جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ پاکستانی طالبان نے سابقہ قبائلی علاقوں کی بحالی، شریعت کے قیام اور آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں پر خودکش حملہ کے الزام میں سزا پانے والے مجرموں سمیت دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں گرفتار ہونے والے مجرموں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یوں حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان نے ستمبر میں اعلان کیا کہ جنگ بندی کا معاہدہ کالعدم ہوگیا ہے۔ سابقہ قبائلی علاقوں، خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں بڑھ گئیں۔ سوات میں ایک اسکول وین پر حملہ کے بعد سوات اور دیگر علاقوں کے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور کئی دنوں تک شدید احتجاج ہوا۔ اس احتجاج میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اراکین شامل تھے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ محمود خان جن کا تعلق سوات سے ہے وہ سوات آنے کو تیار نہیں ہیں۔ بعد میں حکام نے یہ بیان دیا کہ جنگجوؤں کا صفایا کردیا گیا ہے مگر خیبر پختون خوا حکومت کے مشیر بیرسٹر سیف نے طالبان سے رضاکارانہ اپیل کی کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں مگر ان کی اپیل پر کچھ نہ ہوا۔ مالاکنڈ یونیورسٹی کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ اس جرگہ میں تعلیم یافتہ افراد شامل ہیں۔ ان کے مطالبات مکمل طور پر حقائق پر مبنی ہیں۔ ان کے حقائق پر عمل کر کے اس علاقہ میں مستقل امن قائم ہوسکتا ہے۔