اخلاق حسنہ مومن کا سرمایۂ حیات
نیک اخلاق کی حقیقت احکامِ خدا وندی کی بجا آوری اور رسول ﷲ ﷺ کی پیروی کرنا ہے
ﷲ تعالیٰ نے اخلاق آغاز فطرت میں سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو دیا اور پھر انبیاء اور رسلؑ نے تر کہ میں پایا ہے، یہاں تک کہ حضرت سیدِ عالم ﷺ تک پہنچا اور آپؐ سے امت کو ملا ہے۔ جو کوئی شریعت کی پیروی میں زیادہ مضبوط ہوگا اُس کی خصلت بھی اچھی ہوگی۔
کیوں کہ اچھی خصلت والا بارگاہ خدا وندی میں زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ جب اچھا اخلاق حضرت آدمؑ کا ترکہ ہے اور خداوندِ جہاں کی طرف سے تحفہ دیا گیا ہے تو مومن کے لیے اچھی خصلت سے بڑھ کر اور کوئی آرائش و زیبائش نہیں ہے۔ نیک اخلاق کی حقیقت احکامِ خدا وندی کی بجا آوری اور رسول ﷲ ﷺ کی پیروی کرنا ہے۔
کیوں کہ آپؐ کا رہن سہن اور جملہ حرکات و افعال ﷲ تعالیٰ کو بہت پسند تھے، تو جو شخص آپ ﷺ کی پیروی کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ اس طرح زندگی بسر کرے جیسی حضور اکرم ﷺ نے کی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اور غیر کے ساتھ اچھا برتائو رکھے۔
لوگوں کے ساتھ بد مزاجی سے پیش نہ آئے، تاکہ مروت مٹ نہ جائے اور بدخصلتی نہ کرے تاکہ خوش دلی میں فرق نہ آنے پائے۔ ہر وقت ہنس مکھ اور کم بولنے والا رہے، جس سے ملے پہلے خود سلام کرے۔ کیوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ملاقات اصحابؓ کے ساتھ اگر ایک دن میں سو مرتبہ بھی ہوتی تو آپ ﷺ ہر بار سبھی لوگوں کو سلام کرتے تھے۔
جو کچھ اس کو میسر ہے اسی میں سخاوت کرے۔ کیوں کہ حضور اکرم ﷺ کی عمر میں کبھی اس کا موقع نہ آیا کہ رات تک آپ ﷺ کے پاس ایک درہم یا ایک دینار باقی بچا ہو۔ اگر اتفاق سے کچھ رہ جاتا تو جب تک کسی کو دے نہ دیتے آپ ﷺ حجرے میں تشریف نہ لے جاتے۔ کسی کی غیبت، گالی اور جھوٹ زبان سے نہ نکالے اور اپنے کاموں میں زیادہ تکلف اور بڑھاؤ چڑھاؤ کرنے سے پرہیز کرے۔
کیوں کہ اچھے اخلاق کی صفت بے تکلفی اور سادگی ہے۔ اپنے احوال و اعمال اور گفت گُو میں سچائی کے دامن کو نہ چھوڑے اور شریعت کی اتباع میں کھانا، سونا، پہننا اور بولنا کم کر دے اور ہر حال میں ہمت بلند رکھے اور کسی لالچ کے ساتھ اپنے کو آلودہ نہ کرے اور شک و شبہ اور برباد کر دینے والے خیالات سے کنارہ کشی اختیار کرے اور اس کی کوشش کرتا رہے کہ ہر حال میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اخلاق کی پیروی ہو۔
جہاں تک ہو سکے بُرے اخلاق سے پرہیز کرے بلکہ اُسے اپنے پاس بھی نہ آنے دے تاکہ اس کی نسبت شیطان سے نہ ملنے پائے اور کسی وقت شیطان کی طرح بدکردار اور بد زبان نہ ہو۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو تجھ سے کٹ جانا چاہے اس سے مل اور جو تجھ پر ظلم کرے اُس کو معاف کر دے اور جو تجھ کو کچھ نہ دے تو اس کو دے۔''
حضور اکرم ﷺ کو ﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان تھا کہ لوگوں کو ﷲ کی راہ پر لانے کے لیے حکمت کے ساتھ نرم الفاظ میں نصیحت فرمائیں، جو بہت اچھے ہوں۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو ہارونؑ کے ساتھ فرعون کی تبلیغ کے لیے بھیجا گیا تو اُن سے کہا گیا کہ اس سے نرم لہجے میں باتیں کرنا۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس برس تک حضرت سرورِ عالم ﷺ کی خدمت کی۔ اتنے عرصے میں کسی کام پر مجھ کو نہیں کہا کہ تُونے کیوں کیا یا بُرا کیا۔ جب میں اچھا کام کرتا تو آپ ﷺ دعا دیتے تھے اور جب کوئی کام خراب ہو جاتا تھا تو فرماتے تھے: ''ﷲ کا حکم اس کی قدرت میں پوشیدہ تھا۔''
وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے گھوڑے کا دانہ گھاس خود دیتے۔ اپنے ہاتھ سے کپڑے سیتے اور پیوند لگاتے، گھر کے کاموں میں خادموں کے ساتھ شریک ہو جاتے، جوتوں کے بند ٹوٹ جاتے تو اپنے دستِ مبارک سے ٹانکتے، خود جھاڑو دیتے اور چراغ جلاتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ کی تمام عمر گالی گلوچ، طعنہ و تشنیع کے الفاظ زبان پر نہیں آئے۔ آپؐ کا چہرۂ مبارک ہمیشہ بشاش رہتا اور اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ کے پاس پہنچ جاتا تو آپؐ ہی سلام کے لیے سبقت فرماتے اور اصحابؓ کے ساتھ اس طرح گھل مل کر بیٹھتے تھے کہ کوئی امتیاز نہ ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اجنبی کو پہچاننے میں شبہ ہوتا تھا کہ حضور اکرم ﷺ کون ہیں۔
صحابہ کرامؓ کی عزت و تکریم کی وجہ سے اُن کے نام نہ لیتے بل کہ ان کی کنیت وغیرہ سے پکارتے تھے۔ اگر کسی کی کنیت نہ ہوتی تو اس کی ایک کنیت آپ خود رکھ دیتے اور اگر صحابہ کرامؓ میں سے یا کوئی دوسرا شخص آپؐ کو پکارتا تو لبیک فرمایا کرتے تھے۔
اگر بچوں کی منڈلی کی طرف سے گزرتے تو اُن کو سلام کرتے اور مسلمانوں کا عیب ہمیشہ چھپایا کرتے تھے۔ بال بچوں اور غلاموں کا حق برابری کے ساتھ جس طرح شریعت میں ہے لحاظ رکھتے اور دین کی تبلیغ کرنے میں کفار کی گالیاں، لعن طعن اور مار تک برداشت کرتے، کبھی کسی سائل کو محروم واپس نہ کرتے ۔ اگر کچھ موجود ہوتا تو دیتے ورنہ فرماتے اگر خدا نے چاہا تو ہم دیں گے۔
اپنے کام کے لیے آپ کسی پر غصہ نہ کرتے اور دین حق کے اعلان میں خوف، سستی اور تغافل نہ فرماتے۔ پریشانی اور بیماری کی حالت میں اپنے دوستوں کی مدد کرتے۔ اگر کسی وقت ان کو نہ دیکھتے تو ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ اگر آپ ﷺ کا غلام بیمار پڑ جاتا تو اُس کی جگہ آپؐ خود اس کا کام انجام دیتے تھے۔
بازار سے سودا لا دیتے تھے۔ آزاد اور غلاموں کی دعوت قبول فرماتے اور تحفہ لے لیتے تھے، اگر چہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہوتا۔ آپؐ کے احباب جو کھانا بھی، اگر جائز ہوتا پیش کرتے تو شوق سے کھا لیتے۔ کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے اور جو کپڑا جس کا پہننا مباح ہے جب کبھی مل جاتا تھا پہن لیتے تھے۔
کبھی کمبل، کبھی یمن کی چادر، کبھی کھدر اور کبھی سفید کپڑا پہنا کرتے تھے اور جو سواری مل جاتی تھی اس پر سوار ہوتے تھے۔ جیسا موقع ہوتا اور اُس چٹائی پر جس پر کوئی بستر نہ ہوتا آرام فرماتے تھے۔ کوئی شخص آزاد یا غلام یا لونڈی باندیوں میں سے اپنی ضرورت کے لیے آپؐ کو بلاتا تو کبھی ایسا نہ ہوا کہ حضور اکرم ﷺ نے اُن کے کاموں کو قبول نہ کیا ہو۔
اگر کوئی شخص کسی ضرورت سے آپؐ کے پاس آتا اور آپؐ نماز میں مشغول ہوتے تو آہستگی کے ساتھ جلد نماز پوری کر کے اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اُس کی ضرورت پوری کر کے پھر نماز پڑھنے لگتے۔ جو کوئی آپ ﷺ کے پاس آتا تھا اُس کی تعظیم فرماتے تھے۔
حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے لیے آپؐ سواری بن جاتے اور وہ دونوں لاڈلے آپ ﷺ کی پشتِ مبارک پر سوار ہو جاتے۔ جس طرح وہ کہتے ویسا ہی کرتے تھے۔ ان سب باتوں کی روایت حضرت ابُُوسعید خدریؓ نے کی ہے اور حدیثوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔
اس طرح کے اخلاق آپ ﷺ میں تھے جو بیان کیے گئے اور اسی طرح کے بے شمار اخلاق آپ سے مروی ہیں۔ اگر آپ ﷺ کے وہ معجزے بھی نہ ہوتے تو یہ اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ پسندیدہ ہی آپؐ کے برحق و برگزیدہ اصول ہونے کے ثبوت میں کافی ہیں۔ چناں چہ کتنے دشمن اور انکار کرنے والے ایسے گزرے ہیں کہ محض آپ ﷺ کو دیکھ کر ہی پکار اُٹھے تھے: ''یہ جھوٹ بولنے والوں کا چہرہ نہیں ہے۔ اور فوراً ایمان لے آتے تھے اور اسلام قبول کر لیتے تھے۔''
یہی وہ اخلاق ہیں جو اہل علم و فضل نے طریقت کے راستے میں اختیار کیے ہیں۔ ہر حالت میں یہ لوگ شریعت کی پیروی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے اخلاق کو سنتِ نبوی ﷺ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ جب تک کوئی شخص شریعت پر کاربند نہ ہوگا طریقت سے اُس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور وہ اخلاق کی جڑ معرفت تک نہیں پہنچ سکتا۔
الحمدﷲ! ہم مسلمان اور مومن ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں ہمارے اخلاق ناقابل برداشت حد تک ترش اور تند ہوگئے ہیں۔ چغلی، غیبت، جھوٹ، گالی گلوچ اور عیب جوئی ہمارا شغل بن چکا ہے۔
ہمیں اخلاقِ عظیم کے حامل رسول کریم ﷺ کے امتی ہونے کے ناتے سے ہر ممکن حد تک اپنے اخلاق میں سنتِ نبویﷺ کی جھلک کو لانا ضروری ہے تاکہ معاشرہ اخلاق نبوی ﷺ کے خُوش بُو سے ایک بار پھر معطر ہو جائے۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں اچھے اخلاق کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین