پاکستان کے لیے اچھا نہیں
افغانستان کے اندر سے آئے دن پاکستان میں کہیں نہ کہیں حملہ ہوتا ہے
ہمیں مشرقی سرحد پر ہر وقت چوکنا رہنے اور ایک بہترین تربیت یافتہ مضبوط، جدید وار مشین کی ضرورت ہے۔ اس طرف سے کسی بھی لمحے غافل نہیں ہوا جا سکتا۔ دسمبر 1979 سے لے کر اب تک چار دہائیوں سے اوپر ہو چلا ہے کہ ہماری مغربی سرحد بھی محفوظ نہیں رہی۔ افغانستان کے اندر سے آئے دن پاکستان میں کہیں نہ کہیں حملہ ہوتا ہے۔
ان حملوں میں ہمارے بہت سے افسران اور جوان شہید ہو چکے ہیں۔ یہ ہماری اچھی وار مشین ہی ہے جس نے بھارت کو باز رکھا ہوا ہے۔ اگر کسی وقت خدا نخواستہ بھارت نے پاکستان پر جارحیت کردی اور شمال مغربی سرحد پر موجود افغانستان بھی موقع سے فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگائے گا ۔ ہر وقت سر پر منڈلاتے خطرات کے پیشِ نظر ایک مضبوط،توانا اور جدید وار مشین ہمارے ملک کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد جنرل ایوب خان جیسے طالع آزما نے اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کیا۔پاکستان مختلف قومیتوں، لسانی اور کلچرل گروہوں پر مشتمل ایک ملک ہے۔
اس ملک کی مختلف اکائیوں کے درمیان مذہب کے علاوہ کوئی دوسری چیز مشترک نہیں۔ مذہب ایک بہت ہی طاقتور فیکٹر ہے لیکن یہ کسی صورت بھی مختلف قومیتوں کو اکٹھا رہنے پر مجبور نہیں کرتا۔اگر ایسا ہوتا تو تیمور لنگ ترکی سے لے کر ہندوستان تک مسلمان ریاستوں پر ہر گز حملہ نہ کرتا۔عراق،ایران جنگ نہ ہوتی،سعودی عرب اور یمن میں تنازعہ نہ ہوتا، برطانیہ،فرانس کی جرمنی کے خلاف دو عالمی جنگیں نہ ہوتیں،روس اور یوکرین لڑائی نہ ہوتی۔
بنگالی مسلمان بھارت کی مدد سے پاکستان کے خلاف نہ لڑتے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف بھارت نہ استعمال کرپاتا۔ایسے میں اگر کوئی چیز پاکستان کی مختلف لسانی اور معاشرتی قومیتوں اور گروہوں کو اکٹھا رکھ سکتی ہے تو وہ صرف مشترکہ مفادات ہیں اور جمہوریت ہے۔ جمہوریت ہی تمام اکائیوں اور گروہوں کو برابری کی سطح پر یہ اعتماد عطا کر سکتی ہے کہ ان کا پاکستان کے اندر رہنا ان کے فائدے میں ہے۔
پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے پاکستان کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوا ۔پرویز مشرف نے اپنی نااہلی اُس وقت کی سیاسی قیادت کے سر ڈال دی۔ پرویز مشرف اور اس کے ساتھیوں کے جھوٹے بیانیے کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں نواز شریف کے ناقابلِ قبول ہونے کا خیال جڑ پکڑنے لگا۔پرویز مشرف کے لمبے دورِ اقتدار میں نوازشریف ہی توپوں کی زد میں رہا۔
بعض طاقتور حلقوں نے ا س ماحول سے فائدہ اُٹھا کر جناب عمران خان کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے جناب عمران خان کو ایک پسندیدہ رہنماء کے طور پر آگے لانے کی ٹھان لی تو اُن کے لیے کامیابی کے دروازے کھل گئے ۔
جناب عمران خان کا پونے چار سالہ دورِ اقتدار عوام کی امیدوں کے برعکس اچھے نتائج کا حامل نہیں رہا۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔اسی دور میں پٹرول کی قیمتیں اوپر گئیںاور روپیہ اوندھے منہ گرا۔عوام نے ایک بار پھر ن لیگ سے امیدیں باندھ لیں لیکن جناب عمران خان قسمت کے بہت دھنی نکلے۔اس سے پہلے نواز شریف کی قسمت بھی بار بار یاوری کرتی رہی۔عوام انہیں منتخب کرتے رہے۔
اپریل 2022 سے پہلے اکثر ضمنی الیکشن میں ان کی پارٹی ہی کامیاب ہوئی لیکن جیسے ہی جناب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ان کے چاہنے والے بے تحاشہ سرگرمِ عمل ہو گئے۔تاثر ابھرا کہ جناب عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں اداروں کا ہاتھ ہے، بس پھر کیا تھا عمران لوورز نے فوج،آئی ایس آئی کو نشانے پر رکھ لیا۔جناب عمران خان کا میڈیا سیل اتنا جاندار ایکٹو، بے رحم اورپُرجوش ہے کہ چند ہی دنوں میں اداروں کے خلاف ایک فضا بن گئی اور ن لیگ کی بے پناہ مقبولیت بھی دھڑام سے نیچے آ گری۔کسی نے بہت خوبصورت بات کہی تھی کہ جناب عمران خان نے وہ کپڑے پہن رکھے ہیں جن پر کوئی داغ ٹھہر نہیں سکتا۔
فارن فنڈنگ اورتوشہ خانہ کیس میں ان کے خلاف فیصلے کے چند ہی دنوں بعد ارشد شریف کا قتل ہو گیا اور سوشل میڈیا نے توشہ خانہ سے نظریں ہٹا کر اداروں اور وفاقی حکومت کو ارشد شریف قتل کا ملزم بنا دیا۔ارشد شریف قتل سے بننے والی ہیجانی کیفیت میں جناب عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کو جلدی سے ترتیب دیا اور لاہور سے اس کا آغاز کر دیا۔ایک دفعہ پھر اندازے غلط نکلے Fatigue آڑے آئی اورلانگ مارچ میں لوگوں کا جمِ غفیر جمع نہ ہوا۔وزیر آباد میں جناب عمران خان پر انتہائی افسوسناک قاتلانہ حملے کے بعد لانگ مارچ عمران خان کی سیاست ان کے گلے کی پھانس بن کر جاری ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت،سیاسی استحکام اور بہترین اسلحے سے لیس تربیت یافتہ جدید وار مشین اس ملک کی بقا کی ضمانت ہوتے ہیں۔فی الوقت ہمارے ہاں شدید سیاسی عدم استحکام ہے۔ہماری معیشت زبوں حال ہے لیکن ہمارے پاس ایک بہترین فوج ہے۔
پاکستان کی دشمن قوتیں اس آخری مضبوط مورچے کو سر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ کہیں جذبات سے مغلوب ہو کر ہم دشمن قوتوں کے ہاتھ میں تو نہیں کھیل رہے۔
سابق فوجیوں کے اوپر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔جناب عمران خان کی محبت میں انہوں نے جو موقف اختیار کیا، وہ انتہائی نامناسب ہے۔حیرت کی بات ہے کہ جس ملک اور اس کے ادارے نے انہیں عزت و خوشحالی دی ، وہ خود اس کے خلاف صف آرا ہیں۔
ہر ایک سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ہمارے اداروں سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے خلاف صف آرا ہوجائیں۔ہم پاکستانیوں کو اپنی افواج کو نشانہ بنا کر خودکشی کرنے سے بچنا ہو گا۔ربِ کریم پاکستان کی حفاظت فرمائے ،ہمارے لچھن تو کوئی اچھے نہیں۔