خاموشی کی زبان کو سمجھنے کی ضرورت
اگر پاک فوج نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا ہے تو یہ اچھی بات ہے
پاک فوج کی کور کمانڈر کانفرنس کا کوئی باقاعدہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ ادھر سیاسی حلقوں میں افواہوں کا ایک بازار گرم ہے۔
سونے پر سہاگا وزیر اعظم شہباز شریف بھی اچانک لندن چلے گئے جس نے افواہوں کی فیکٹری کو مزید گرم کر دیا۔ اس لیے کسی کو فی الحال کچھ سمجھ نہیں آرہی، ہر کوئی مرضی کے سچ کی تلاش میں ہے اور شاید کسی کو حقیقی سچ کا کچھ علم نہیں۔ لیکن ملک میں ہر کسی کو کچھ نہ کچھ فوری ہونے کی امید ضرور ہے۔
جہاں تک کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ کی بات ہے تو یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، اس سے پہلے بھی ایسا ہوا ہے۔ اس حوالے سے جب ایک دفعہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔ آپ ہماری خاموشی کی زبان بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ آج بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ آپ ہماری خاموشی کی زبان سمجھیں۔
پاک فوج بھی عجیب مشکل میں لگ رہی ہے۔ اگر وہ کچھ بولے تو کہتے ہیں کیوں بولتے ہیں، بولنا آپ کا کام نہیں ہے، آپ بولتے ہیں تو اس کے سیاسی مطلب نکالے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اگر وہ نہ بولیں تو کہا جاتا ہے کہ بولتے کیوں نہیں۔ اگر کور کمانڈر کانفرنس کے بعد کوئی اعلامیہ جاری کیا جاتا تو اس پر سوال اٹھائے جاتے اور اب جاری نہیں کیا گیا تو اس پر بھی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
اگر پریس کانفرنس کی جائے تو اس پر بھی تنقید کی جاتی ہے اور اگر نہ کی جائے تو اس پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ لازمی بات ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں کئی باتیں ہوئی ہوں گی تاہم اگر پاک فوج نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ ایک دفعہ تمام باتوں کا جواب دیا جا چکا ہے لہذا مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ادھر ملک کے سیاسی اور صحافی حلقوں میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا طومار ہے۔ کچھ حضرات تو ملک میں مارشل لا لگائے جانے کی بات کر رہے ہیں لیکن مجھے اس کا کوئی امکان نہیں لگتا لیکن افواہیں گرم ہیں۔ ملک کے اندر تو براہ راست مداخلت کے حالات بھی نظر آرہے ہیں۔
لیکن پاک فوج نے A Politicalرہنے کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ اس پر قائم ہے۔ ویسے بھی عالمی حالات بھی سازگار نہیں ہیں۔ دنیا اس قدر تقسیم ہے کہ ایسے میں پاکستان خود کو کسی مشکل میں نہیں ڈال سکتا، اس لیے مجھے مداخلت کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے ہیں تا ہم میرے کچھ دوست بضد ہیں۔ بہر حال میرا اور ان کا اختلاف باقی ہے۔ فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ کون صحیح اور کون غلط ہے۔
جہاں تک وزیر اعظم شہباز شریف کے لندن جانے کا معاملہ ہے تو مجھے اس میں بھی کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آرہی۔ اسحاق ڈار کی واپسی اور مریم نواز کے بری ہو کر لندن جانے کے بعد شہباز شریف لندن سے بھی ایسے دباؤ میں نہیں ہیں جیسے پہلے تھے۔
اس لیے ایسا نہیں ہے کہ میاں نواز شریف نے کسی اہم بات کے لیے شہباز شریف کو لندن طلب کیا ہے۔ ماضی کی بات کچھ تھی لیکن آج ایسی صورتحال نہیں ہے۔ اس لیے لندن جانے میں خطرے کی بات نظر نہیں آتی۔
لیکن پھر بھی آڈیو اور ویڈیو لیک کے زمانے میں بات کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ محفوظ لائن بھی محفوظ نہیں رہی، اس لیے جو باتیں ملاقات میں ہو سکتی ہیں، وہ اب فون اور دیگر ذرائع سے ممکن نہیں، اس لیے اب مشاورت کے لیے ملنا ضروری ہوگیا ہے۔
بڑی بڑی اور چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ایک دوسرے سے کرنا ضروری ہوتی ہیں۔ دوستوں کا خیال ہے کہ اس دفعہ کا دورہ اہم تعیناتی کے لیے ہے، شہباز شریف مشاورت کے لیے گئے ہیں، میں انکار نہیں کر سکتا۔ یقینا یہ ایک اہم معاملہ ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف مفاہمت کے بادشاہ ہیں، اس لیے سب کچھ خوش اسلوبی سے ہوگا، اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ اس موضوع پر کوئی مشاورت کی ضرورت ہے۔ جو طے ہو چکا ہے، اس کا مناسب وقت پر اعلان کر دیا جائے گا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شہباز شریف کا خاندان ابھی لندن میں ہی ہے۔ ان کی واپسی کی راہ ابھی ہموار نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے ان کو ملنا بھی ضروری ہوتا ہے، خاندانی ملاقاتوں کو سیاست کے لیے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جب وزیر اعظم نے کہا کہ یہ خاندان اکٹھا تھا تو کوئی غلط بات بھی نہیں تھی۔
باقی جہاں تک دوستوں کی یہ رائے ہے تو میں اس بارے میں یہی کہوں گا کہ افواہوں کا بازار گرم ہے، آپ بھی انجوائے کریں، میں بھی انجوائے کررہا ہوں اور خاموشی کی زبان کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔