مہنگائی کا مقابلہ بحوالہ آٹے کی قیمت

آٹے کی قیمت میں اب تک پون صدی میں صرف 600 فیصد اضافہ ہوا ہے



آج کل بہت مہنگائی ہے۔ گزارا نہیں ہوتا، دال چاول آٹا خرید لیں تو گھی کے پیسے نہیں بچتے۔ ہر کوئی یہ بات کرتے ہوئے مہنگائی سے نالاں دکھائی دیتا ہے۔

پریشان ہے دل گرفتہ ہے۔ اوپر سے بجلی بم گرے چلے جا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے پٹرول بم گرائے جا رہے ہیں۔ مختلف اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ سابقہ حکومت نے سارا قصور عالمی منڈی پر تھوپ دیا تھا۔ موجودہ حکومت روس یوکرین جنگ کا سہارا لے رہی ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کے ساتھ خالص ناخالص ملاوٹ شدہ خوراک اور گوشت کے نام پر ہڈی چربی بھر دینا اور دیگر قباحتیں موجود ہیں ، جب کہ دنیا کے دیگر بہت سے ملکوں میں مہنگائی تو ہے لیکن یہ مسائل نہیں ہیں۔

بہت سے لوگوں نے تو گوشت کھانا چھوڑ دیا کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ مہنگا ترین گوشت وہ بھی ہڈی چربی سے بھرپور۔ لہٰذا ہم پرہیزکرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ دوست کا کہنا ہے کہ اب ان کی کسی قصائی سے نہیں بنتی، ہاں البتہ 1960کی دہائی میں جب تک بکرے کا گوشت 4 روپے فی کلو یا 10 سے 12 روپے فی کلو رہا، پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 16 سے 20 روپے فی کلو تک رہا، جنرل ضیا الحق کے دور میں 40 تا 50 روپے فی کلو رہا تو قصائیوں سے خوب دوستی تھی۔

بھلا بتائیے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں جیسے ہی 120 روپے فی کلو ہوا پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 300 روپے فی کلو سے بھی بڑھنے لگا تو قصائیوں سے ان کے اختلافات بھی بڑھنے لگے ، لیکن اب وہ کسی قصائی سے کوئی اختلاف نہیں کرتے کیونکہ وہ جیسے ہی بکرے کے گوشت کا بھاؤ پوچھتے ہیں تو قیمت اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ قصائی کے کان میں بڑے دوستانہ انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' آدھا پاؤ تول دیجیے گا '' اور جھٹ پیسے نکال کر اتنے پیسے دے دیتے ہیں۔ مہنگائی کا مقابلہ کرنا اسی کو کہتے ہیں ، لیکن بقول ان کے آٹے کے سلسلے میں ایک آدھ پاؤ سے کام نہیں چلتا۔

قیام پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک آٹے کی قیمت میں 600 گنا اضافہ ہوا ہے۔ چلیے لگے ہاتھوں آٹے کی قیمت کا موازنہ کر لیتے ہیں۔ لیاقت علی خان شہید کے دور میں آٹا 20 پیسے فی سیر دستیاب تھا۔ پھر خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان بنے تو آٹا 25 پیسے فی سیر پھر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں آٹا 50 پیسے کا ہوا، اور راشن کارڈ کے ذریعے آٹا، چاول، چینی، گھی وغیرہ ملتا رہا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک روپیہ فی کلو ہو گیا۔ سیر سے فی کلو اس لیے کہ 1974 سے میٹرک سسٹم نافذ ہو چکا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے دور کے آخر میں 3 روپے فی کلو تک جا پہنچا۔ راشن سسٹم بھی آہستہ آہستہ دم توڑنے لگا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پھر یوٹیلیٹی اسٹور کا سسٹم چلایا۔

جناب نواز شریف کا دوسرا دور تھا جب آٹا بہت مہنگا ہوگیا کیونکہ فروری، مارچ 1997 کے بعد اچانک معلوم ہوا کہ آٹا غائب ہو گیا ہے۔ آٹا ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں میں ایسا جا کر چھپا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ آٹا ہے کہاں؟ دنیا کے کسی اور ملکوں میں شاید کہ کہیں ایسا ہوتا ہو لیکن پاکستان میں عموماً بہت سی اشیائے خوراک حتیٰ کہ ادویات کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ کبھی آٹا، کبھی چینی، کبھی گھی، مختلف ادویات اور دیگر اشیا بھی غائب ہو کر اس کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ بلیک مارکیٹنگ شروع ہو جاتی ہے۔

آٹے کی قیمت میں اب تک پون صدی میں صرف 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آٹے کی قیمت میں زیادہ اضافہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔ 2007 تک آٹا 15 روپے فی کلو تھا۔ پھر اس کے بعد 20 روپے فی کلو ہوا، پھر آٹے کی قیمت کو لگام دینے والے 2008 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنھوں نے 22 روپے فی کلو تک مستحکم رکھا۔ اس کے بعد 2013 سے 2018 تک آٹا 30 سے 40روپے فی کلو تک رہا۔

لیکن 2018کے وسط کے بعد سے آٹا آپے سے باہر ہوتا چلا گیا۔ قیمت بڑھتی رہی بڑھتی رہی۔ 60 سے 70 روپے پھر 80 روپے فی کلو اس کے ساتھ ملک بھر میں مہنگائی کا سونامی برپا ہو چکا تھا۔ ہر طرف ہر شے ہر چیز ہر انسان ہر چھوٹے بڑے ہر کنبے کو مہنگائی کی سونامی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر 80، 90 اور پورے 100 روپے فی کلو آٹا۔ اور سابقہ حکومت اقتدار سے باہر ہوگئی۔

یہی کہا جا رہا تھا کہ بہت مہنگائی ہوگئی۔ اس وقت حکومت کا اپریل تک یہی کہنا تھا اور کسی حد تک کچھ نہ کچھ بات بھی درست تھی کہ عالمی منڈی میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے یعنی خاص طور پر پام آئل، چینی، پتی، دالوں اور دیگر کئی اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد آٹا 100 روپے فی کلو کی حد سے آگے نکل چکا تھا۔

اگرچہ 100 روپے فی کلو تک بھی ہوتا تو ہم اسے 500 فی صد اضافہ کہہ سکتے تھے لیکن اب کسی بھی چکی والے کے پاس چلے جائیں 120 روپے فی کلو سے کم آٹا دستیاب نہیں ہوگا۔

لہٰذا حساب سیدھا سادا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پانچویں دہائی کے اولین سالوں تک اگر آٹا بحساب20 روپے فی سیر یعنی ایک روپے کا 5 سیر تو اب 120 روپ کے 600 سے زائد سیر تقریباً فی کلو کا مطلب ہوا کہ 600 گنا اضافہ ہوا ۔ حکومت زرعی منصوبہ بندی کرنے، گندم کی پیداوار، اس کی لاگت اور صارف تک پہنچانے کے انتظامات کے اخراجات کو گھٹائے تو باآسانی آٹے کی قیمت کم کرنے سے مہنگائی کا کچھ مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔