ریاست کی اوور ہالنگ

ثقافتی نقصان کے باوجود، خواتین کی طرف سے گاڑیاں چلانا بذات خود ان کے بڑھتے ہوئے اعتماد کا ایک زبردست مظہر تھا


اکرام سہگل November 12, 2022

تقریباً 5 سال بعد ریاض کا دورہ کرتے ہوئے نئے ایئرپورٹ ٹرمینل کا مجموعی ماحول مختلف محسوس ہوا۔ سابقہ ممنوعہ امیگریشن کاؤنٹرز سے، روانگی پر، خواتین کی موجودگی۔ اچھاimage دیا۔ آمد Arrival پر اب دستیاب ویزوں کے ساتھ، واضح طور پر پرجوش خواتین اہلکار، اچھا کارآمد ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں، وہ اب بھی سیکھنے کے مراحل پر ہیں۔

نئے قواعد یقینی طور پر کاروبار یا غیر معمولی دورے کے لیے بہت اچھے ہیں لیکن عمرہ کرنے کے خواہشمند افراد کے لیے جوابات مکمل کرتے وقت محتاط رہنا ہوگا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو ہمیں مسجد نبوی میں '' روزہ رسول '' جانے والیAPP کار خراب ہو گئی۔

میری اہلیہ اور بہنوئی کو وہاں 5 گھنٹے انتظار کرنا پڑا، ''خصوصی ہینڈلنگ'' کے دفتر میں دو سعودی خواتین اہلکاروں نے دیکھ بھال کی، محترمہ نورہ نے اپنی ڈیوٹی سے کہیں زیادہ ہماری مدد کی، ان کی اسسٹنٹ محترمہ عائشہ کی مدد کے ساتھ تمام رکاوٹوں عبور ہوتی رہیں۔

ہوائی اڈے کے ٹرمینل کے بالکل سامنے ایک مستقبل کا ٹرین اسٹیشن ٹرمینل زیر تعمیر ہے۔ ریل لائنوں کا نیٹ ورک اس صحرائی ملک کے بڑے شہروں کو جوڑ دے گا۔ ریاض کے پورے علاقے کو مسمار کر دیا گیا ہے یا گرایا جا رہا ہے، ہر جگہ وسیع و عریض نئی عمارتیں بنی ہوئی ہیں، ان کی منصوبہ بندی اور تعمیر کو دیکھا جائے تو یقین ہو جائے کہ گورنر ریاض اپنے طویل دور میں ، موجودہ حکمران شاہ سلمان کی زیر سرپرستی شہر کو جدید بنارہا ہے۔

ان کے بیٹے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (MBS) مملکت کی مستقبل کی ضروریات اور خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سب کچھ دوبارہ کر رہے ہیں۔ ریاض حیران کن طور پر بدل گیا ہے، ہم بہت خوش قسمت تھے کہ ایک اچھے دوست کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، ایک چھوٹے بھائی کی طرح وہ اور اس کی بیوی ہمیں اپنے گھر کا احساس دلا رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح مدینہ امن کی علامت ہے، سیکیورٹی عملہ کم ہے اور زیادہ شائستہ ہے۔

مدینہ سے مکہ تک 450 کلومیٹر حرمین ہائی اسپیڈ ریلوے (HHR) بہترین تھی، تاہم انھیں ایئر لائن کے سامان کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ سائز اور نمبر کے لیے سامان کے اصول ناقابل عمل ہیں اور ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

یہاں تک کہ بزنس کلاس کے مسافروں کے طور پر ہمیں اپنا سامان (کیونکہ سائز HHR کی اجازت سے زیادہ تھا) ایک اضافی گاڑی کے ذریعے مکہ مکرمہ بھیجنا پڑا۔ مکہ جاتے ہوئے HHR پر جدہ سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ 50 لاکھ آبادی والے اس شہر میں وسیع و عریض عمارتیں غائب ہو چکی ہیں۔

جب کہ بلڈوزر نے پورے محلوں کو ہموار کر دیا ہے، پرانا شہر جسے یونیسکو کی ثقافتی ورثہ کی جگہ کا نام دیا گیا ہے، جسے ابھی تک ہاتھ نہیںلگا۔ نئی تعمیر ایم بی ایس کے پرانے شہروں کو مستقبل کے لیے نئے میٹروپولیس میں منتقل کرنے کے عزم کا زندہ ثبوت ہے جس میں مستقبل کی تمام مواصلاتی ضروریات ترقی کے لیے لازمی ہیں۔ جدہ کی کچی بستیوں میں جرائم پیشہ گروہ بستے تھے۔

مناسب منصوبہ بندی اور نکاسی آب کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے جدہ سیلاب کا شکار ہو گیا ہے۔ تفصیلی منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکے گا۔ جب کہ مکہ مکرمہ اور اس کے گردونواح میں بھی ترقی کافی حد تک نظر آ رہی ہے، عام دنوں میں بھی شہر کی ٹریفک بہت زیادہ رہتی ہے۔ مکہ مکرمہ کے حکام اور شہریوں دونوں کے درمیان ریاض اور مدینہ والوں کے مقابلے میں ''باڈی لینگویج'' کا فرق واضح ہے۔

حرم شریف کے اندر اور اس کے آس پاس کے سیکیورٹی گارڈز کا رویہ قدرے سخت تھا ۔ کلاک ٹاور پر واقع فیئرمونٹ ہوٹل مکہ مکرمہ میں ''رویہ'' سے مستثنیٰ تھا۔ ڈیوٹی پر موجود مینیجر عمر الشریف سے شروع کرتے ہوئے جب ہم پہنچے تو پورے عملے نے بہت شائستہ طریقے سے مسائل حل کیے ۔ کعبہ کے قریب مراکشی، پاکستانی، ہندوستانی، سری لنکا وغیرہ کئی قومیتوں کا پورا عملہ انتہائی مددگار تھا۔

خاص طور پر اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایک برمی مسلمان، ہوٹل کے ایک ویٹر حافظ نامی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہماری خوب دیکھ بھال کی ۔ کوئی بھی ہوٹل اور/یا سیکیورٹی تنظیم اس طرح کی قیادت پر منحصر ہوتی ہے جو عمر الشریف جیسے مینیجرز کی طرف سے دی گئی تھی، یہ کافی شاندار تھا۔

ایم بی ایس کے کام کی وجہ سے تیزی سیتبدیلی آ رہی ہے۔ بہادر شہزادہ سعودی عرب کو ترقی کی جانب کھینچ لایا ہے، رسم و رواج کو پس پشت ڈال کر وہ حالات کو بہتر سے بہتر بنا رہے ہیں۔ ریاض اور مدینہ، مکہ اور جدہ میں بہت سے لوگوں سے بات ہوئی جن سے میں نے اس بات پر تبصرہ کیا کہ کس طرح شاہی وزراء نے وقت کی پابندی زیادہ تر پانچ منٹ پہلے کرنے کا ایک نقطہ بنا کر مثال قائم کی اور جو بھی شخص میٹنگ کا کرے اس کے پاس مکمل ایجنڈا ہونا چاہیے اور اسے محدود وقت دیاجائے گا، چائے یا گپ شپ کے لیے کوئی وقت نہیں ۔

جو کوئی بھی فرائض یا معیار کے مطابق اپنی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو وہ خود کو برطرف سمجھے۔ MBS کا کلیدی منصوبہ شمال مغربی سعودی عرب میں بحیرہ احمر کے شمال میں تبوک صوبہ نیوم Neom اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز اور ایک سیاحتی مقام ہے جومستقبل کا شہر ہے۔

Neom بنانے کے کلیدی مقاصد

(1)سعودی معیشت مملکت کو عالمی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے پوزیشن دینا ۔

(2) دنیا بھر کے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کے لیے ایک نئے مستقبل کے ساتھ گھر اور کام کی ایک جگہ فراہم کرنا۔

(3) شہری استحکام کے لیے ایک نیا ماڈل متعارف کروا کر کمیونٹی کی صحت، ماحولیات کے تحفظ اور ٹیکنالوجی کے موثر اور نتیجہ خیز استعمال کے لیے نئے معیارات مرتب کرنا۔ معیشت کو تیل پر انحصار سے ہٹا کر آگے بڑھانا۔ سعودی عرب مستقبل میں خواتین کی معیشت میں شمولیت کے بغیر معاشی آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔ زیادہ تر مسلم ممالک پسماندہ رہتے ہیں کیونکہ انھیں ''مالی شمولیت'' میں جگہ نہیں دی جاتی۔

ثقافتی نقصان کے باوجود، خواتین کی طرف سے گاڑیاں چلانا بذات خود ان کے بڑھتے ہوئے اعتماد کا ایک زبردست مظہر تھا۔ امید ہے کہ سعودیہ 50 یا اس سے زیادہ دوسرے مسلم ممالک میں بھی خواتین کو بااختیار بنانے کی حوصلہ افزائی کرے گا، جن میں سے زیادہ تر عام طور پر معاشرے اور/یا کاروبار میں خواتین کے لیے بہت کم جگہ رکھتے ہیں۔ افرادی قوت میں شامل سعودی خواتین اب ان شعبوں میں ملکی معیشت میں فعال شراکت دار ہیں ۔ اب ان کے لیے ، MBS کا کھلنا بڑی کامیابی ہے۔

(مضمون نگار دفاعی اور سلامتی کے تجزیہ کار، سرپرست اعلیٰ کراچی کونسل آف فارن افیئرز (KCFR) اور وائس چیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ (قائداعظم ہاؤس میوزیم ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں