مفاہمت کا راستہ

حکومت و اداروں پر الزامات کی جو بوچھاڑ جاری ہے اس نے ایک جل تھل کا منظر بنا دیا ہے


MJ Gohar November 13, 2022
[email protected]

اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے علم سیاسیات سے مراد ریاست کا علم ہے۔ عصر حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث ریاست کی ہیئت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ چنانچہ علم سیاسیات بھی ارتقائی منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے۔

علم سیاسیات کی تعریف کرتے ہوئے معروف دانشور ارسطو کہتا ہے کہ '' علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے'' جب کہ دور جدید کے ماہرین علم سیاسیات کی تعریف کے ضمن میں مختلف النوع آرا رکھتے ہیں۔ بعض مفکرین علم سیاسیات کو ریاست کا علم کہہ کر پکارتے ہیں اور بعض اسے حکومت کا علم قرار دیتے ہیں ، جب کہ بعض دانشور حضرات اسے ریاست اور حکومت دونوں کا علم قرار دیتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر گارنرکے بقول '' علم سیاسیات کی ابتدا اور انتہا ریاست ہے'' جب کہ گریس کے نزدیک '' تمام اختیارات کا سرچشمہ ریاست ہے اور علم سیاسیات ریاست کی اہمیت، مقاصد اور معاشی و معاشرتی مسائل سے بحث کرتا ہے۔'' دوسری جانب پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن لیکاک کہتے ہیں کہ '' سیاسیات ایسا علم ہے جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔''

پروفیسر سیلے کا موقف ہے کہ '' علم سیاسیات حکومت کے حقائق کی جستجو کرتا ہے جس طرح معاشیات کا علم دولت سے تعلق رکھتا ہے، بیالوجی زندگی سے، الجبرا اعداد سے اور جیومیٹری کی جگہ اس کی وسعت ہے۔'' ایک تیسرا نکتہ نظر رکھنے والے مفکرین سیاسیات کو ریاست اور حکومت دونوں کا علم قرار دیتے ہیں۔

فرانسیسی مفکر پال جینٹ کا کہنا ہے کہ علم سیاسیات عمرانی علوم کا وہ حصہ ہے جو ریاست کی بنیادوں اور حکومت کے اصولوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ای سی اسمتھ کے بقول علم سیاسیات معاشرتی علوم کی ایک شاخ ہے جو ریاست کے نظریے اور تنظیم اور حکومت اور اس کی کارکردگی سے متعلق ہے۔

سیاسیات کی مذکورہ تعریفوں کے تناظر میں آپ وطن عزیز کی سیاست اور اس سے جڑے سیاسی کرداروں پر نظر ڈالیے اور غور کیجیے کہ کیا آپ کامل یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے آج کے سیاستدان علم سیاسیات سے کماحقہ آگاہ ہیں؟ کیا کوئی سیاستدان جو آج حکومت، ریاست اور عوام کے مفادات کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، علم سیاسیات کی باریکیوں، نزاکتوں، جزئیات اور اس کے تقاضوں، مدارج، منشا اور رجحانات کو پوری طرح سمجھتے ہیں؟

کیا آج کے سیاستدان سیاست کے اسرار و رموز، جمہوریت کے آداب، پارلیمانی تقدس، عوامی نمایندگی کے حق ادائیگی اور ملک و قوم اور ریاست و حکومت کی ذمے داریوں کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں؟ اور کیا انھیں پورا کرنے کی صلاحیت ، قابلیت ، لیاقت اور اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا وہ اس قدر صاحب بصیرت و صاحب کردار ہیں اور ایسی صفات کے حامل ہیں جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی شخصیت کا خاصا اور ان کی پہچان تھیں؟

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان سوالوں کا جواب ہاں میں دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اگر ہمارے ارباب سیاست قائد اعظم کی سیاسی سوجھ بوجھ اور خوبیوں کے حامل ہوتے تو قائد کا یہ ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا۔ غیر سیاسی قوتوں کو اقتدار کی راہ داریوں میں قدم جمانے کے مواقع نہ ملتے اور نہ ہی ایوان عدل سے کبھی '' نظریہ ضرورت '' کی بازگشت سنائی دیتی۔

گزشتہ چار دہائیوں کی قومی سیاست میں جو اخلاقی گند اور غلاظت شامل ہوگئی اور جس طرح اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے وہ آج کی نوجوان نسل جسے کل ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے کو دیکھنے کو نہ ملتا۔ آج ملک کے کروڑوں عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، جہالت، افلاس، اخلاقی گراوٹ اور فاقہ کشی کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہ اپنے بچوں کو فروخت کر رہے ہوتے اور نہ ہی خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوتے۔

نہ ہم عالمی برادری میں اپنا وقار کھوتے اور نہ ہی ہم سے '' ڈو مور'' کے مطالبات کیے جاتے، نہ یہ ملک فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہوتا۔ نہ مذہبی منافرت پروان چڑھتی، نہ صوبائیت و لسانیت کا بیج بویا جاتا اور ایک دوسرے کے خلاف انتقامی جذبات کو ہوا ملتی۔آپ آج کی حکومت اور ریاست کے جملہ عناصر اور ان کی کارکردگی کو دیکھ لیں۔ کیا کہیں دور اندیشی، بالغ نظری، حکمت، بصیرت، تدبر و تحمل، صبر اور برداشت ایک دوسرے کی عزت و احترام کا تعلق نظر آتا ہے؟

حکومت سے لے کر اپوزیشن تک اور صحافت سے لے کر قیادت تک ہر عامل اپنا دامن بچانے کی فکر میں ہے۔ محض الزامات، الزامات اور الزامات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ریاست کے تمام ادارے حرف گیری کی زد میں ہیں۔ ایک دوسرے کو قصور وار ٹھرایا جا رہا ہے، پھر پریس کانفرنسوں اور بیانات کے ذریعے صفائیاں پیش کی جا رہی ہیں کیا اس طرح کا طرز عمل ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کے مترادف نہیں ہے؟

کیا اس سے جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے؟ کیا اداروں کا وقار بلند ہو سکتا ہے؟ کیا ان کا اعتماد قائم رہ سکتا ہے؟ یقینا ایسے سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ تو پھر ہمارے اکابرین سیاست کو الزامات اور انتقام کے رویوں اور منفی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اپوزیشن میں صرف ایک جماعت پی ٹی آئی مدمقابل ہے۔

عمران خان اپنے جس بیانیے کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں اور حکومت و اداروں پر الزامات کی جو بوچھاڑ جاری ہے اس نے ایک جل تھل کا منظر بنا دیا ہے۔مناسب ہوگا کہ ملک و قوم کی خاطر عمران خان دانش مندی، صبر و تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کریں اور ٹکراؤ کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیارکریں، ورنہ ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں