نیوجرسی کامران ندیم کی کتابوں کی تقریب رونمائی
کامران ندیم کے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر سلیم نے بھی نہایت خوبصورت ترنم کے ساتھ کامران ندیم کی ایک غزل پیش کی
امریکا میں اردوکی بستیوں کو بسانے میں پاکستان سے آئے ہوئے بے شمار ادیبوں اور شاعروں نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور اردو زبان کے فروغ میں وہ شب و روز پیش پیش رہے ہیں ان ادیبوں اور شاعروں میں ایک شاعر کامران ندیم بھی تھے۔
کامران ندیم کا تعلق لاہور سے تھا انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی شاعری کا آغاز کیا اور نوجوان نسل میں ان کی شاعری کو پذیرائی حاصل ہوتی رہی یہ انھی دنوں مختلف رسائل میں بھی لکھتے رہے نظم اور نثر دونوں میں ان کو بڑی دسترس حاصل تھی جلد ہی ان کا پہلا شعری مجموعہ وحشت ہی سہی کے نام سے منظر عام پر تھا اور اس کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی پھر یہ پاکستان سے امریکا آگئے اور یہاں بھی لکھنے کا سلسلہ جاری رہا اور اردو کی ترقی اور فروغ میں یہ دیگر ادیبوں اور شاعروں کے قافلے میں شامل ہوگئے۔
مذاکروں اور مشاعروں میں کامران ندیم کا نام بھی ان کی بھرپور شخصیت کی پہچان بنتا چلا گیا۔ ایک بار یہ بیمار ہوئے تو اسپتال میں ان کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ کینسر کے مہلک مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں ان کی شریک حیات فرح کامران کے لیے یہ خبر بجلی بن کر گری تھی۔
فرح کامران نے سمجھایا کہ اب وہ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ کم کر دیں اور پہلے اپنی صحت کی طرف توجہ دیں ابھی مرض کی ابتدا ہے انشا اللہ جلد قابو پالیا جائے گا ، مگر ساری امیدیں دم توڑتی چلی گئیں اور کینسر کا مرض تیزی سے بڑھتا چلا گیا اور آخر 2015 میں کامران ندیم اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور امریکا کی اردو بستیاں ایک عظیم رائٹر اور شاعر سے محروم ہوگئیں۔
ان کی شریک حیات نے عزم و ہمت کے ساتھ اپنے مرحوم شوہر کے ادبی مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے کامران ندیم فاؤنڈیشن کی تشکیل دے کر ان کے ادبی ورثے کو بھی محفوظ کیا اور مختلف ادبی تقریبات کا آغاز بھی کیا۔ میری بھی فرح کامران صاحبہ سے ایک ادبی تقریب میں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ بہت اچھی شاعرہ بھی ہیں اور بے شمار ادبی و ثقافتی تقریبات کی نظامت بھی کرتی رہی ہیں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری بھی نیویارک اور نیوجرسی میں منعقد ہونے والی کتابوں کی تقریبات کی یہ کمپیئرنگ کرتی رہی ہیں اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نظامت کے فرائض ادا کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں نیوجرسی کے مقامی ہوٹل میں کامران ندیم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کامران ندیم کی دو مشہور کتابوں کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔ کامران ندیم ایک ایسا تخلیق کار اور شاعر تھا جس کی محنت اور ریاضت نے اس کے گہرے تجربے اور مشاہدے نے ادبی دنیا میں اسے ایک منفرد مقام عطا کیا تھا۔ ان کی لکھی ہوئی دو کتابوں مہابھارت اورگوشہ بساط کو ادبی حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ ان دو کتابوں کی رونمائی کی تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور شاعر رئیس وارثی نے انجام دیے تھے۔
شاعر رئیس وارثی کے بارے میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ رئیس وارثی بھی امریکا میں اردو زبان کو پھیلانے میں اردو کے ہراول دستے میں شامل رہے ہیں اور ان کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ انھوں نے امریکا میں بڑے پیمانے پر پہلی اردو کانفرنس کا بھی اہتمام کیا تھا۔ کامران ندیم کی دو مندرجہ بالا کتابوں کی تقریب رونمائی میں نیویارک اور نیوجرسی کی مقتدر ادبی شخصیات نے شرکت کی تھی اور کامران ندیم کی شخصیت اور شاعری پر مدلل گفتگو کی تھی۔
کہتے ہیں کہ انسان دو بار مرتا ہے پہلی بار جب وہ جسمانی طور سے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور دوسری بار جب دنیا سے اس کا نام ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی زندگی بچائی نہیں جاسکتی لیکن انسان کی سوچ بچائی جاسکتی ہے انسان یہ مانا کہ وہ فانی ہے مگر اس کا کام لافانی ہوتا ہے اور آج کامران ندیم کا کام اس کے دنیا سے جانے کے بعد زندہ ہے اور دنیائے ادب میں اس کی یادوں کے چراغ جلاتا رہے گا۔
اس تقریب میں پروفیسر خالدہ ظہور نے ایک بہت خوبصورت مضمون پڑھا تھا اور کامران ندیم کی شخصیت اور شاعری کو بقول شخصے کوزے میں دریا بند کیا تھا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کامران ندیم مرحوم شمالی امریکا کے معروف شاعر تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خاندان فرح کامران اور دونوں بیٹوں سرمد کامران اور علی کامران نے اپنے والد کے کام اور ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے ایک فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی ہے۔
قدیم اساطیری داستان مہابھارت جس پر وہ اپنی بیماری کے دوران بھی کام کرتے رہے اور دوسری کتاب گوشہ بساط بھی شایع ہو کر ادبی حلقوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ تقریب میں مشہور شاعر اور کالم نگار واصف حسین نے بھی کامران ندیم کی شخصیت اور شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس تقریب میں فرح کامران نے اپنے مرحوم شوہر کامران ندیم کی ایک غزل بھی سنائی جس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں:
وصل یار کی ساعت خود ہی جگمگاتی ہے
روشنی نہیں تو کیا ، مہرباں اندھیرا ہے
اک تو کم نگاہی تھی' شل ہے پائے امکاں اب
اور دشت وحشت کے درمیاں اندھیرا ہے
طاقِ خوش گمانی میں شمع جاں پگھلتی ہے
پھر بھی خانۂ دل میں بدگماں اندھیرا ہے
اس بدن کی گھاٹی میں ماہتاب روشن تھا
حیرتی نگاہوں میں اب کہاں اندھیرا ہے
اک دیا بھلا کب تک تیرگی سے لڑ سکتا
میں ندیم ہارا ہوں کامراں اندھیرا ہے
مہمان اعزازی واصف حسین واصف نے مزید کہا کہ میرے اور کامران ندیم کے فکری ڈانڈے معروف دانشور سبط حسن کی تحریروں کے حوالے سے ملتے ہیں۔ کامران ندیم مشکل پسند کام کرنے کے عادی تھے۔ اس تقریب کے دوسرے مہمان اعزازی صباحت عاصم واسطی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بہت سے نامور ادیب اور شاعر گوشۂ گمنامی میں چلے گئے کیونکہ ان کے بعد ان کے کام کو کسی نے نہیں سنبھالا۔
تقریب کے صدر محترم غلام حسین ساجد نے اپنے خطاب میں کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کامران ندیم کی روح نے اپنی بقا کے لیے نیا جسم تلاش کرلیا ہے اور یہ جسم اس کا اپنا خاندان ہے کامران کی تحریر اپنے اساطیر اور اپنی زبان سے جڑی ہے ان کی کتاب گوشہ بساط میں جن نامور شخصیات کا تذکرہ کیا ہے کامران ندیم کی شخصیت میں بھی ان کا عکس پایا جاتا ہے۔
کامران ندیم کے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر سلیم نے بھی نہایت خوبصورت ترنم کے ساتھ کامران ندیم کی ایک غزل پیش کی۔ اس تقریب میں ایک مشاعرے کی ایک پرانی وڈیو بھی چلائی گئی جس میں وہ غزل سرا تھے۔ اس تقریب میں مشہور غزل سنگر سلامت علی اور عذرا ریاض (سلامت علی) نے بھی اپنی دلکش گائیکی کے دوران کامران ندیم کی غزلیں بھی پیش کیں اور رات دیر گئے یہ محفل موسیقی بھی جاری رہی اور پھر نصف شب کو یہ تقریب انجام پذیر ہوئی ہے۔