تحقیقاتی صحافت

ہماری حالیہ سیاسی اور صحافتی تاریخ میں مرحوم ارشد شریف تحقیقاتی رپورٹنگ میں ایک اہم نام کہا جا سکتا ہے


سرور منیر راؤ November 13, 2022
[email protected]

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں تحقیقاتی صحافت کو ادارہ جاتی حیثیت حاصل نہ ہو سکی ۔ ملک میں جمہوریت نہ ہونے کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا تاہم پاکستان کے محب وطن صحافیوں نے اپنے انفرادی مفادات حتیٰ کہ اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کرتے ہوئے تحقیقاتی صحافت کا بیڑہ اٹھا یا ہے۔

ہماری حالیہ سیاسی اور صحافتی تاریخ میں مرحوم ارشد شریف تحقیقاتی رپورٹنگ میں ایک اہم نام کہا جا سکتا ہے۔ انھیں ایسی رپورٹنگ کی پاداش میں اپنی جان تک گوانا پڑی۔ رب کریم ارشد شریف کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ امین

آصف علی زرداری اور بھٹو خاندان کا سرے محل، یوسف رضاگیلانی کی اہلیہ کا ہار، نواز شریف کا پاناما کیس ہو یا عمران خان کا توشہ خانہ اسکینڈل، سب ہی تحقیقاتی رپورٹنگ کی وجہ سے سامنے آئے۔

بھارت کا تہلکہ ڈاٹ کام ہو یا امریکا میں صدر نکسن کے دور کا واٹر گیٹ اسکینڈل، بل کلنٹن کے دور کا مونیکا لیونسکی کیس ہو یا فلپائن کے صدر ایسٹراڈا کو ملنے والی سزا، ان سب کے پس منظر میں تحقیقاتی صحافت کا ہی کردار نظر آتا ہے۔

امریکا کے صدر نکسن نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ مجھے جو معلومات کسی نیوز رپورٹر سے ملاقات کے دوران حاصل ہوتی تھیں وہ بعض اوقات CIA کے چیف کی طرف سے دی جانیوالی بریفنگ کی نسبت زیادہ مصدقہ اور اہم ثابت ہوئیں۔

تحقیقاتی صحافت فی الحقیقت کسی بھی چیز کو ''جاننے کے عوامی حق'' کا نام ہے۔ تحقیقاتی صحافت کے ذریعے ان چیزوں کو آشکار کیا جاتا ہے جنھیں سرکاری ذرایع عوام سے چھپانا چاہتے ہیں۔ صحافت کی یہ قسم حکومتوں اور اداروں کے غلط اقدامات کو نمایاں کر کے انھیں درست کرنے اور مثبت پالیسی بنانے کے عمل میں معاونت کرتی ہے۔ اس فیلڈ میں کام کرنیوالے صحافی معاشرے میں ہونے والی انفرادی اور اجتماعی برائیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان کی اصلاح کا کام کرتے ہیں۔

تحقیقاتی صحافت کے عمل میں کامیابی کے لیے ایک رپورٹر کو اپنا قیمتی وقت حقائق جاننے کے لیے باقاعدگی سے استعمال کرنا ہوتا ہے اور ذاتی تحریک سے یا کسی سے حاصل ہونے والے اشارے کی بنیاد پر اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔ اسے انٹریوز کرتے ہوئے احتسابی نکات تک پہنچنا ہوتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹنگ کی فیلڈ میں آگے بڑھنے کے عزم ، صبر، احتیاط اور دیانت کا ہونا ضروری ہے۔ تحقیقاتی رپورٹنگ محض کیچڑ اچھالنے اور کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ حقائق کو سامنے لانے کا نام ہے۔

تحقیقاتی رپورٹر کو عام صحافی یا رپورٹر کی طرح سامنے نظر آنیوالے حقائق ہی بیان نہیں کرنے ہوتے بلکہ اسے سامنے کی سطح کے نیچے چھپی ہوئی حقیقتوں کو ڈھونڈنا ہوتا ہے۔

تحقیقاتی رپورٹر کی آنکھیں اور کان ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں اور اس کی قوت مشاہدہ تیز تر ہونی چاہیے۔ تحقیقاتی رپورٹر کو ملکی قوانین اور ادارہ جاتی قوائد و ضوابط کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے کیونکہ اگر اس کی رپورٹ جھوٹی ثابت ہو جائے تو اسے سزاوار قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے رپورٹر کو اپنا تحقیقاتی کام کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اسے پل صراط سے گزر کر منزل حاصل کرنا ہوتی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹر کو حقائق اور فسانے میں تمیز روا رکھنی ہوتی ہے یعنی ''He has to separate facts from fiction'' اسے حاصل شدہ حقائق کو مصدقہ قرار دینے کے لیے کئی ذرایع سے ان کی جا نچ پڑتال کرنی چاہیے تا کہ ان کی تردید نہ ہو سکے۔ بعض اوقات اسے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندوں کی طرح Under Cover Investigation بھی کرنا پڑتی ہے لیکن ایسا کردار ادا کرتے ہوئے اسے صحافت کے اخلاقی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

حقائق پر مبنی تحقیقاتی رپورٹنگ کی بنیاد پر حیران کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس رپورٹنگ کے نتیجے میں اربوں روپے کی لوٹ مار سے قوم محفوظ ہو جاتی ہے۔ اس رپورٹنگ کے نتیجے میں اداروں کی پالیسیوں میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ بدعنوان اور کرپٹ افسران اور سیاستدانوں کے ہاتھ پاؤں بندھ جاتے ہیں۔ ملازمت سے برطرفی، تنزلی اور استعفیٰ تک دینے پڑ جاتے ہیں۔

قوانین کو تبدیل کرنا پڑتا ہے تا کہ بدعنوان اور ظالم افسران قوائد وقانون کا سہارا لے کر اپنی جان نہ بچا سکیں۔ اس طرح کی کامیاب رپورٹنگ سے معاشرے میں صحافت اور میڈیا کا مقام اور مرتبہ بڑھتا ہے اور ایسے رپورٹر صحافت کے میدان میں آنے والے نوجوانوں کے لیے آئیڈیل بن جاتے ہیں۔

تحقیقاتی رپورٹنگ کو اپنانے والے صحافیوں کے لیے ایک اہم اور کلیدی رہنما اصول یہ ہے کہ وہ صحافتی قواعد وضوابط اور اخلاقی قدروں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی رپورٹنگ کریں کہ وہ نہ تو قانون کی گرفت میں آسکیں اور نہ ہی انھیں جان گنوانا پڑے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بہترین تحقیقاتی رپورٹر وہ ہے جو اپنی صحافتی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے شہید کے درجے پر فائز نہ ہو بلکہ اسے غازی کا درجہ حاصل ہو تاکہ وہ اپنی کاوشوں کے نتیجے کو رپورٹ کر سکے اور معاشرے کے لیے اس کی تحقیق کا فائدہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں