گلوبل وارمنگ اور پاکستان کے مسائل

ہماری قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی


Editorial November 14, 2022
ہماری قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی (فوٹو : فائل)

ایک خبر کے مطابق پاکستان کو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تقریباً پندرہ ارب ڈالر کے قریب نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

سال رواں کے سیلاب سے متعلق ''پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ'' رپورٹ کے مطابق حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے براہ راست نقصانات کا تخمینہ 14.9ارب ڈالر لگایا گیا ہے جب کہ مجموعی معاشی خسارہ 15.2ارب ڈالر کا ہوا ہے، یہ پاکستان کی معیشت کو ناک آؤٹ کردینے والا نقصان ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔

ادھر رواں ماہ جاری کی گئی ورلڈ بینک کی ''کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ'' میں پاکستان کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیرنو پر کم سے کم 16.3ارب ڈالر کے اخراجات ہوں گے۔

پاکستان میں غربت کی شرح میں 3.7 تا 4.0 فیصد اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مزید 84لاکھ سے 91 لاکھ افراد غربت کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔

موسمی تبدیلیاں اور ان کے باعث شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔

پاکستان کے پاس گلیشیئرز کی صورت میں دنیا بھر میں برف کے تیسرے سب سے بڑے ذخائر ہیں، بظاہر یہ بہت ہی اچھی بات ہے لیکن بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان میں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے ۔

بڑھتا ہوا درجہ حرارت بحیرہ عرب کو گرما رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شمال میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے بھی پاکستان کے لیے مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہورہا ہے۔

گلوبل وارمنگ ' ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تغیر کی وجہ سے پورا کرہ ارض شدید طور پر متاثر ہو رہا ہے' کرہ ارض پر صحرائی رقبہ بڑھ رہا ہے جب کہ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے جس کی وجہ سے سمندری طوفانوں کی شدت بھی بڑھ رہی ہے ، غیر متوقع بارشوں کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے چند روز پہلے مصرکے شہر شرم الشیخ میں کوپ سمٹ کا انعقاد ہوا تھا جس میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی شرکت کی تھی۔

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، پاکستان خشک علاقوں میں جنگلات کی بحالی کے لئے تکنیکی مہارت کی فراہمی کے ذریعے مڈل ایسٹ گرین انیشییٹیوکے مقاصد کے حصول کے لئے پرعزم ہے۔

کرہ ارض کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ بنانے کے لئے قریبی تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔ گرین انیشیٹو کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور کاربن کے اخراج میں کمی لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔درخت بڑی مقدار میں آکسیجن خارج کرتے ہیں جس سے ماحول میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوتی ہے۔

انسان نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بے دریغ درختوں کی کٹائی کی ہے،بعض مقامات پر تو بڑے بڑے جنگلات ختم ہو گئے ہیں،انسان کی وقتی طور پر ضروریات تو پوری ہو گئی لیکن اس عمل سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے، دوسری جانب فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھویں اور شور نے ماحول کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ، اس کے علاوہ امریکا اور یورپ کی جانب سے کمزور ملکوں پر جنگیں مسلط کرنے سے بھی ماحولیات میں حیرت انگیز حد تک تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی۔

افغانستان میں دہشت گردی کی آڑ میں امریکا نے انتہائی خوفناک بموں کا بے دریغ استعمال کیا، اس سے ماحول میں تبدیلی کے عمل میں تیزی پیدا ہوئی، اس کے علاوہ شام ،یمن اور افریقہ کے کچھ ممالک میں خانہ جنگی کی صورتحال نے بھی ماحول کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس تناظر میں صورتحال واضح ہو جاتی ہے کہ عالمی سطح پر ماحول کو تباہ کرنے میں امریکا اور یورپ کا بنیادی کردار ہے لیکن اس کی سزا پاکستان اور دیگر کمزور ممالک بھگت رہے ہیں۔

دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی اور خطرات کا بخوبی ادراک ہے، پاکستان میں حالیہ سیلاب اور تباہی نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس خطرے سے ابھی سے نہ نمٹا گیا تو آنے والے برسوں میں دیگر ممالک بھی اس مصیبت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ادھر ایک خبر کے مطابق پاکستان اورآئی ایم ایف حالیہ بجٹ میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے اثرات پر اتفاق رائے کے لئے کوشش کر رہے ہیں' یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کا مشن تاحال پاکستان نہیں آیا ہے۔

فریقین اس فرق کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ قرضوں کی فراہمی کی زیادہ لاگت اور پیٹرولیم مصنوعات سے کم آمدنی کی وجہ سے اضافی اقدامات کے بغیر بنیادی بجٹ خسارہ رواں مالی سال میں تقریباً جی ڈی پی کا 2.8 فیصد یعنی 2.2 ٹریلین روپے تک کی بلند سطح پر پہنچ سکتا ہے۔

تخمینہ شدہ اعداد و شمار سیلاب سے پہلے کے منظر نامے میں آئی ایم ایف کے ساتھ متفقہ جی ڈی پی کے ابتدائی بجٹ سرپلس ہدف کے 0.2 فیصد سے زیادہ ہے۔ خبر میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس پر غیر سیلابی عوامل زیادہ اثر انداز ہیں کیونکہ بجٹ پر سیلاب کا اثر جی ڈی پی کے 0.2 فیصد سے زیادہ نہیں تھا۔

پاکستان آیندہ ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ ڈیٹا شیئر کرے گا، جس سے یہ طے ہو گا کہ آیا آئی ایم ایف مشن کے رواں ماہ پاکستان آنے کا امکان ہے یا اس میں دسمبر تک تاخیر ہو سکتی ہے۔پاکستان کو آئی ایم ایف سے تقریباً 3 ارب ڈالر قرض ملنا ابھی باقی ہے جسے تین جائزوں کی تکمیل کے بعد ریلیز کیا جا سکتا ہے۔

وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ بجٹ اور معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لے اور جب مضمرات واضح ہوں گے تب ہی مشن کے پاکستان آنے کی تاریخ دی جا سکے گی۔انھوں نے مزید کہا کہ سیلاب کے اثرات کا تجزیہ نامکمل ہے، اس لیے آئی ایم ایف مشن دورے کی تاریخیں واضح نہیں تھیں۔

حالیہ برسوں میں طوفانوں، سیلابوں، شدید بارش اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس سے خوراک اور پانی کی دستیابی میں قلت کے باعث لاکھوں افراد کو عالمی امداد کی شدید ضرورت ہے۔

پاکستان دو موسمی نظاموں کے سنگم پر واقع ہے۔ تازہ ترین سیلاب کے بارے میں بھی ماہرین کا اتفاق ہے کہ پاکستان دنیا کے ایسے مقام پر واقع ہے جہاں دو بڑے موسمی نظام موجود ہیں اور پاکستان کو ان کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک نظام مارچ کے مہینے میں گرمی کی شدید لہر کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لے کر آتا ہے۔

ماہرین دس برس قبل اس خطرے سے آگاہ کرچکے ہیں لیکن دس سال کے درمیانی عرصے میں ہم نے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

پاکستان کو اس زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ موسمیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی اقدامات کو سیاست کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور درست حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

موسمی آفات سے مختلف شعبہ جات پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث پاکستان کی جامع قومی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

پاکستان میں آنے والے سیلاب نے صوبہ بلوچستان اور سندھ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے ' بڑے پیمانے پر جہاں زراعت کو نقصان پہنچا وہاں شہریوں کے کاروبار اور گھر بھی تباہ ہوگئے ہیں 'اتنی بڑی آبادی کی بحالی پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

اب یہ محض معاشی سلامتی بمقابلہ روایتی سلامتی کا معاملہ نہیں رہا ہے بلکہ اس میں ماحولیات کا فیکٹر بھی شامل ہوگیا ہے۔ قومی طاقت تمام عناصر اور وسائل پر مبنی ہوتی ہے جو ریاست کو اپنے مفادات کے حصول کے قابل بناتے ہیں۔

لہٰذا یہ تمام عناصر، وسائل اور شعبہ جات اس کی سلامتی میں حصے دار ہیں۔ گویا قومی سلامتی کو اس جامع نگاہ سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس میں تمام شعبہ جات پر یکساں توجہ ہو جب کہ موسمیاتی سلامتی کو اس کی شدت اور فوری نوعیت کی وجہ سے ترجیح دی جائے۔

ہماری قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ پالیسی سازوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات پر محدود توجہ ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں