عمران خان اب ذرا نیچے اترئیے
عمران خان اگرجمہوریت پریقین رکھتے ہیں اورتاریخ کے اندھیروں میں گم نہیں ہوناچاہتے تولازم ہے کہ پھروہ اپنااحتساب خودکریں
عمران خان اپنے بیانیے کے ایسے اسیر ہوئے ہیں کہ اس سے ہٹ کر اب وہ خود اپنا ہی اچھا برا دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو گئے ہیں۔ ان کی حالیہ کیفیت دیکھ کر اقبالؒ کی ایک معروف نظم شمع اور شاعر یاد آ جاتی ہے۔ اس کا ایک شعر زباں زد عام ہے اور عمران خان کے حسب حال ہے یعنی ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
اقبالؒ حکیم الامت ہیں، ہمارے مرض کی کیفیات جیسی وہ سمجھیں گے، ویسی اور کسی کی سمجھ میں کیا آئے گی۔ عمران اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کی مالا جپتے ہوئے میدان سیاست میں کودے اور دیکھتے ہی دیکھتے خود کو ایک ایسے قائد کے منصب پر فائز کر لیا ہے کہ اب انھیں دائیں بائیں کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔
بزرگ کہا کرتے تھے کہ کوئی فرزانہ خود کو اگر ایسے بلند مقام پر فائز کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر نہ صرف وہ اپنے لیے دائیں بائیں کی راہیں بلند کر لیتا ہے بلکہ اسے وہی چبوترہ پورے کرہ ارض کی مانند دکھائی دیتا ہے لہٰذا جب وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی سلطنت میں وسعت کے لیے قدم آگے بڑھاتا ہے تو وہ ایک بسیط خلا میں جا گرتا ہے۔ اس قسم کے فرزانوں کو اس انجام سے بچانے کے لیے سلیم احمد مرحوم نے کہا تھا ؎
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے
عمران خان کی موجودہ کیفیت کو غم زندگی کے عظیم شاعر منیر نیازی نے اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ لطف آجاتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا ؎
کج انج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
بات یہ ہے کچھ عمران خان کی مشکل پسندی تھی جس نے انھیں پریشانیوں سے دوچار کیا اور کچھ ان کے عقیدت پسندوں کی نادانی تھی جس نے دیوتا کے منصب پر فائز کر کے انھیں گرد و پیش سے کاٹ دیا۔ لیجیے پھر منیر نیازی یاد آ گئے۔
عمران خان کی کیفیت اب ایک ایسے عاشق کی سی ہو گئی ہے جو اپنے محبت کے ہرجائی پن سے دکھی ہو کر گاتا پھرتا تھا ؎
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
عمران خان یہ نہیں دیکھتے کہ ان سے غلطی کیا ہوئی، ان کے بیانئے کا سقم کیا ہے اور میدان سیاست سے لے کر ایوان اقتدار میں ان سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں، بس دوسروں کو الزام دیے جاتے ہیں۔ ان کی اسی ذہنی کیفیت نے انھیں ایک عظیم تنہائی میں لا کھڑا کیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ گرد و پیش سے ناراض لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کر کے اپنے گرد اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کامیابی کا تقاضا یہ تھا وہ پرانے پامال راستوں پر چلنے کے بجائے کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنی فکر میں کشادگی پیدا کرکے جائزہ لیتے کہ پاکستان کن عوارض میں مبتلا ہے اور ان عوارض کا علاج کیا ہے۔
عمران خان جس راستے پر چلے اوربگٹٹ دوڑے، یہ وہی پامال راستہ تھا جس پر کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو دوڑیں اور میاں محمد نواز شریف نے چہل قدمی کی۔ ان راہوں میں بچھے کانٹوں نے ان کا وہی حال کر دیا جس کی طرف دل کے سچے شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم نے اپنی ایک نظم میں اشارہ کیا تھا ؎
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ ایک کی دم
سمجھ دار وہی کہلاتے ہیں جو تلخ تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ نکالیں۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اپنی ان غلطیوں سے سبق سیکھا، مل بیٹھے اور آگے بڑھنے کا راستہ نکالا۔ سلامتی کا یہی راستہ تھا جو میثاق جمہوریت کے نام سے وجود میں آیا اور اس نے قوم کے لیے وہ راہ عمل تجویز کیا جس پر چل کر وہ اپنے مسائل سے نجات حاصل کر سکتی تھی۔
عمران خان نے اسی راہ عمل کی تضحیک کی اور اسے مک مکا کا نام دیا۔ وہ سمجھ دار ہوتے تو سمجھ جاتے کہ اصل خرابی اس راہ عمل میں نہیں بلکہ اس منصوبے میں ہے جس میں انھیں ایک پیادے کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔
مقصد ان خوش نما نعروں کو عملی جامہ پہنانا نہیں جو عمران خان کی زبان پر جاری کیے گئے بلکہ یہ ہے کہ اس کی مدد سے جمہوریت کی راہ کھوٹی کرنی مقصود ہے۔
عمران خان اس کھلونے کو حقیقت سمجھ بیٹھے اور رسوا ہوئے۔ اگر اقتدار کی منھ زور خواہش کو اپنے ہی قدموں تلے کچلنے کی صلاحیت رکھتے تو فورآ ہی سمجھ جاتے کہ شفافیت کے نام پر جیسے جیسے بہروپئے ان کی جھولی میں ڈالے جا رہے ہیں۔
ان کی مدد سے وہ کچھ تو ہو سکتا ہے جس کی بازگشت عثمان بزدار کے کارناموں کی صورت یا ہیرے کی انگوٹھیوں کی چمک دار کہانیوں کی صورت ہمارے سامنے شرمندہ کھڑی ہیں۔ خیر، وہ شفافیت اور ایمان داری کے اتنے ہی رسیا ہوتے تو توشہ خانے کی ہوشربا داستانیں ہی جنم نہ لیتیں۔
بات دوسری طرف نکل گئی۔ کہنا یہ ہے کہ عمران خان اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور تاریخ کے اندھیروں میں گم نہیں ہونا چاہتے تو لازم ہے کہ پھر وہ اپنا احتساب خود کریں۔
اپنے بیانیے کی زنجیریں توڑ کر حقیقت کی دنیا میں آئیں اور اپنے غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے میثاق جمہوریت میں پناہ لیں۔ یہی میثاق پاکستان اور بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور عمران خان کی خواہشات سے اٹی ہوئی سیاست کو راہ راست پر لاکر اسے دوام بھی دے سکتا ہے ورنہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں ، اس میں نہ پاکستان کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ان کا اپنا۔