روس سے تیل کی خریداری کو ممکن بنایا جائے

ایک روایتی اور وقتی پالیسی کسی بھی صورت میں ہمیں معاشی بحران سے نہیں نکال سکے گی


Editorial November 15, 2022
ایک روایتی اور وقتی پالیسی کسی بھی صورت میں ہمیں معاشی بحران سے نہیں نکال سکے گی

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ جلد روس سے تیل کی خریداری ممکن ہوجائے گی، امریکا سے کہہ دیا کہ وہ ہمیں روس سے تیل خریدنے سے نہیں روک سکتا۔

دبئی میں مسلم لیگ (ن) کے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ رواں سال پاکستان کو 32سے 34 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، امید ہے یہ رقم جمع کرلی جائے گی۔ماضی میں ڈالر کو آزاد چھوڑ کر ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا گیا۔ عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ساتھ ہی فیول کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس انتہائی مشکل وقت میں جس میں پاکستان کو اپنے پہلے سے ہی قلیل مالی وسائل کی وجہ سے ایک بہت بڑا بوجھ اٹھانا پڑا ہے، سستی پٹرولیم مصنوعات کی خریداری ہمارے مالی مسائل میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

حکومت کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ روس سے تیل خریدنے میں ہی پاکستان کا فائدہ ہے۔ کیش فلو کا معاملہ جو اتنا بڑا نہیں ہے۔ پاکستان نے اپریل اور مئی میں تیل کی سپاٹ بائنگ کی اور نقد ادائیگی پر ہر ماہ میں تیل کی تقریباً پانچ چھ کھیپیں خریدیں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کی رضامندی کے بعد ماسکو فروخت کی شرائط پر لچک دکھائے۔

جہاں تک روسی خام تیل اور پاکستان کی ریفائنری کی صلاحیتوں میں مماثلت کا تعلق ہے تو پاکستان روسی تیل خرید سکتا ہے اور مارکیٹ میں تبادلہ کر سکتا ہے، چونکہ پاکستان کو موجودہ مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور اس کی کلیدی وجہ پٹرولیم کی قیمتیں ہیں۔

جہاں تیل اور توانائی کی مصنوعات کل درآمدی بل کا تقریباً 25فیصد بنتی ہیں۔ اس طرح توانائی کی شرح میں اتار چڑھاؤ معیشت کی حالت اور تجارتی توازن پر بڑا اثر ڈالتا ہے۔ اس کے مزید اثرات افراط زر، کرنسی اور زرمبادلہ کے ذخائر وغیرہ پر پڑتے ہیں۔

پاکستان کی سرکاری دستاویز یعنی اقتصادی سروے اس نکتے کو بہت اچھے سے واضح کرتا ہے۔ حال ہی میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کے تیل کے درآمدی بل میں 95.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

مالی سال 2022 میں جولائی تا اپریل کے دوران تیل کا درآمدی بل بڑھ کر 17.03 ارب ڈالر ہو گیا، جو پچھلے سال اسی مدت کے دوران 8.69 ارب ڈالر تھا۔پاکستان کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ یو کرین کی جنگ کے بعد کے عرصے میں بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں شدید کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔

ڈالر کی اڑان جاری ہے اور پاکستان کا تیل کا درآمدی بل آگے بڑھ رہا ہے۔ خوراک سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا، یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ نئی حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق یکدم تیل، گیس اور بجلی سے تمام سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، نتیجہ یہ ہوا کہ شہریوں کی قوت خرید میں بہت کمی آئی ہے۔

پاکستان پر دباؤ کے علاوہ برطانیہ کے حمایت یافتہ امریکا نے دوسرے ممالک پر بھی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ وہ روس سے تیل اور گیس نہ خریدیں۔ تاہم بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور ہنگری سمیت بیشتر ممالک نے ایسے فیصلے کیے، لیکن بہت کم ممالک امریکی دباؤ کے سامنے جھک گئے۔

وزیر اعظم شہباز شریف تو میثاق معیشت کی بات بھی کر رہے ہیں مگر کشیدہ سیاسی حالات میں میثاق معیشت کیسے ممکن ہوسکے گا، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ، لیکن حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کے پاس موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کا کوئی ایسا واضح روڈ میپ نہیں جو مثبت انداز میں مستقبل کا کوئی سیاسی و معاشی نقشہ کھینچ سکے۔

ایک روایتی اور وقتی پالیسی کسی بھی صورت میں ہمیں معاشی بحران سے نہیں نکال سکے گی۔ یہ جو لوگ معاشی ترقی کا حل سیاسی مسائل کو نظر انداز کرکے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ درست تجزیہ نہیں۔ معاشی مسائل کا ایک بڑا حل ملک میں سیاسی استحکام اور سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔

اس لیے مضبوط اور مربوط سیاسی صف بندی اور چند اہم قومی سیاسی اور معاشی معاملات پر حکومت و حزب اختلاف کا اتفاق رائے کے بغیر مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہوسکے گا۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے پر سیاسی سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں