پارلیمانی سیاست سے جڑے مسائل
ہمارا یہ پارلیمانی نظام ایک طرف دو طبقات کے مفادات کا کلب ہے جس کا واحد مقصد ان مخصوص طبقات کے مفادات کو تحفظ دینا ہے
پاکستان میں سیاسی قیادتیں عمومی طور پر قومی سیاسی مسائل کا حل سیاسی فورم پر تلاش کرنے اور ان کے ممکنہ حل کو خود یقینی بنانے کے بجائے عدلیہ کے کندھے استعمال کرتی ہیں۔ جو مسائل سیاسی فورم پر حل ہونے چاہیے ان کو عدالتوں کی طرف لے جانے سے سیاسی مسائل اور زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
جب سیاسی فیصلے عدالتوں سے سامنے آتے ہیں تو جہاں ان کی حمایت کی جاتی ہے وہیں ان پر تنقید بھی ہوتی ہے ۔ ایک عمومی سیاسی رویہ یہ بن گیا ہے کہ اگر فیصلہ ایک فریق کے حق میں آئے تو عدلیہ آزاد بھی ہوتی ہے اور اس پر زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔لیکن فیصلہ جس فریق کے خلاف آتا ہے وہ اس فیصلہ کو قبول کرنے کے بجائے ان پر نہ صرف تنقید کرتا ہے بلکہ اسے متنازعہ بنا کر عدلیہ پر جانبداری کا الزام بھی لگاتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی مسائل اور عدلیہ پر موجود ان کے دباؤ کی وجہ سے مسائل اور زیادہ پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ ریاست اپنی ذمے داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے ۔سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہیے اور باہمی تنازعات کو عدالتوں میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ کے فورم پر حل کرنے چاہیے۔ سردست سیاسی معاملات پر مکالمہ کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے پارلیمان سے بہتر کوئی دوسرا فورم نہیں ہوسکتا۔
اگر ملک میں سیاست ، جمہوریت اور آئین یا قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے تو اس میں سیاسی نظام ، سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت کو ہی بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اگر سیاسی قیادت اپنی ذمے داری اداکرنے کے بجائے کسی اور پر اس کا بوجھ ڈال کر خود کو بچانا چاہتی ہیں تو ایسے ممکن نہیں ہوگا۔
موجودہ سیاسی بحران کو بھی دیکھیں حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں ہی اپنے سیاسی مسائل پارلیمنٹ یا سیاسی فورمز پر حل کرنے کے بجائے اول اسٹیبلیشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں یا دوسری طرف ان کا جھکاؤ عدلیہ پر ہوتا ہے۔
جب اسٹیبلیشمنٹ یا عدلیہ کچھ فیصلے کرتی ہیں تو اس پر سیاسی قیادتوں میں سیاسی ماتم بھی ہوتا ہے اور پھر ناکامی کا بوجھ بھی اسٹیبلیشمنٹ اور عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ وجوہات ہیں جو سیاست دانوں کو پارلیمانی نظام کو مستحکم کرنے یا پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے سے روکتی ہیں۔
سیاسی فریقین ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ بار بار کی سیاسی مداخلتوں کے باعث پارلیمانی نظام کمزور ہوا ہے ۔ یہ سیاسی فریقین کا آدھا سچ ہے جب کہ پورا سچ یہ ہے کہ سیاسی فریقین نے بھی اپنا وہ سیاسی کردار ادا نہیں کیا جو اس ملک میں سیاست ، جمہوریت اور پارلیمانی بالادستی کو مستحکم کرسکتا۔ پارلیمانی نظام کے حوالے سے چند بڑے مسائل ہیں۔
اول، بیشتر وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ان کی تسلسل کے ساتھ پارلیمنٹ میں عدم موجودگی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے پارلیمنٹ کو جوابدہ بنانا مشکل ہوگیا ہے۔ دوئم، پارلیمنٹ میں موجود اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی عدم فعالیت اور عدم دلچسپی اور ذمے دار وزراء کے عدم تعاون کی وجہ سے کمیٹیاں بھی اپنے مقاصد پورا نہیں کرپا رہی ہیں۔
سوئم، جب اہم سیاسی فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے کسی اور پس پردہ فورمز پر ہوں اور پارلیمنٹ کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر پارلیمانی نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان رہیں گے۔ چہارم، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کی طاقت کابینہ ہوتی ہے ۔لیکن مکمل کابینہ کے مقابلے میں کچن کیبنٹ کی بالادستی یا پارلیمانی نظام کو باہر سے ریموٹ کی بنیاد پر چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
حزب اختلاف بھی اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے بجائے محض حکومتوں کو گرانے کے کھیل میں سازشی کردار کو اختیار کرلے تو پھر پارلیمانی نظام کوکامیابی سے چلانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ششم پارلیمنٹ اور عوام کے مفادات کے درمیان ٹکراو ہو یا عوامی مفادات کو نظرانداز کرکے پارلیمانی نظام ایک مخصوص طاقت ور طبقوں کے مفادات کی ترجمانی کرے تو ایسا نظام بھی لوگوں میں افادیت کھودیتا ہے۔
ہمارا یہ پارلیمانی نظام ایک طرف دو طبقات کے مفادات کا کلب ہے جس کا واحد مقصد ان مخصوص طبقات کے مفادات کو تحفظ دینا ہے ۔ اسی طرح جب پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کی حیثیت محض ایک ڈیبٹنگ کلب کی بن جائے تو اس سطح پر ہونے والے مباحث سے عام آدمی کو کچھ نہیں ملے گا۔
ہمارا پارلیمانی نظام قومی مسائل کے حل کے بجائے ارکان اسمبلیوں میں سرکاری ترقیاتی وسائل کی تقسیم یا نوکریوں کی بندر بانٹ ترقیاتی بجٹ کی سطح پر لوٹ مار یا ارکان اسمبلی کی مراعات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ قانون سازی، عملدرآمد کے نظام اور اصلاحات کا عمل بہت پیچھے چلاگیا ہے جو پارلیمانی نظام کی افادیت کو کمزو ر کررہا ہے ۔