ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لیں

آبادی کے تناسب سے ذیابطیس کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو پھر پاکستان پہلے، فرنچ پولینیشیا دوسرے اور کویت تیسرے نمبر پرہے


Wasat Ullah Khan November 15, 2022

گزشتہ روز ( چودہ نومبر ) عالمی یومِ ذیابطیس منایا گیا۔اس سے پہلے کہ ذیابطیس کے تازہ عالمی نقشے پر نگاہ ڈالیں۔خود ذیابطیس کی ابجد کیوں نہ دوھرا لی جائے۔

جو بھی خوراک ہم استعمال کرتے ہیں وہ جسم میں داخل ہو کر گلوکوز ( شوگر ) بنتی ہے اور پھر خون میں شامل ہوتی ہے۔خون میں گلوکوز ایک مخصوص مقدار میں ہی داخل ہو۔

اسے یقینی بنانے کے لیے قدرت نے ہر جسم میں لبلبہ نامی ایک کنٹرولر مقرر کر رکھا ہے جو انسولین بناتا ہے،تاکہ آپ کے خون میں داخل ہونے والے گلوکوز کی مقدار توانائی کی شکل میں جسم کو ضروری ایندھن فراہم کر سکے۔

بعض اوقات متعدد وجوہات کے سبب لبلبلہ یا تو ضروری مقدار میں انسولین پیدا نہیں کر پاتا یا پھر پوری طرح فعال نہیں رہتا۔یوں گلوکوز کی مقدار آپ کے خون میں بلا رکاوٹ بڑھتے بڑھتے جسمانی پیچیدگیوں کا محرک بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ فالتو گلوکوز دل، گردے، اعصاب اور بینائی پر اثرانداز ہونے لگتا ہے۔

اب تک شوگر کی بے قاعدگی کو قدرتی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے کوئی مستقل حل دریافت نہیں ہو سکا۔ البتہ وزن میں کمی، صحت مند غذا، متحرک معمولات، اچھی نیند اور اعصابی تناؤ میں کمی کی مشق سے کسی حد تک شوگر مینیجمنٹ ضرور ہو سکتی ہے۔شوگر کے مرض کی دو عمومی اقسام زیادہ جانی جاتی ہیں۔ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔

ٹائپ ون شوگر کی شکایت تب لاحق ہوتی ہے جب جسم میں کسی اندرونی ردِعمل کے سبب انسولین بننے کا عمل معطل ہوجاتا ہے۔یہ اچانک ردِعمل بچوں اور نوعمروں میں بھی ہو سکتا ہے۔اسے کنٹرول کرنے کے لیے روزانہ انسولین لینا پڑتی ہے۔عموماً ٹائپ ون کے مریضوں کی تعداد پانچ سے دس فیصد کے درمیان ہے۔

البتہ اکثریت بتدریج ٹائپ ٹو شوگر کی زد میں آتی ہے۔آپ کا لبلبلہ رفتہ رفتہ انسولین کی مقدار کم بنانے لگتا ہے۔یوں خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اس کا ہدف زیادہ تر جوان یا پکی عمر کے لوگ ہیں۔علامات بھی آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں۔

ذیابطیس کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو دورانِ حمل گلوکوز کی مقدار میں اتار چڑھاؤ کے سبب پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے منفی اثرات بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دورانِ حمل شوگر لیول کی نگرانی ازبس ضروری سمجھی جاتی ہے۔

اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص شوگر کی سرحد پر کھڑا ہے۔ طرزِ زندگی اور روزمرہ عادات میں صحت مند تبدیلیوں کے ذریعے اس سرخ لکیر سے پیچھے ہٹنا ممکن ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کے مطابق انیس سو اسی میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد ایک سو آٹھ ملین تھی جو اگلے چار عشروں میں چار گنا بڑھ گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ذیابطیس کے متاثرین کی تعداد لگ بھگ چار سو بیالیس ملین ہے۔ہر سال ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے سبب پندرہ سے بیس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔یہ مسئلہ متوسط اور غریب ممالک میں زیادہ سنگین ہے۔

ذیابطیس کی بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کا اندازہ ہے کہ سرکاری و عمومی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسئلہ وبائی شکل اختیار کر رہا ہے اور اگر اس بابت موثر بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے دو ہزار تیس تک چھ سو تینتالیس ملین اور دو ہزار پینتالیس تک سات سو تراسی ملین افراد لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔

اگر بیس برس کی عمر تک کے ٹائپ ون ذیابطیس چارٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو حیرت انگیز طور پر امریکا سرِفہرست دکھائی دیتا ہے۔وہاں فی ہزار ایک سو پچھتر افراد ٹائپ ون ذیابطیس کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہیں جب کہ انڈیا میں یہ تناسب فی ہزار ایک سو اکہتر ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے طرزِ زندگی میں بہت فرق ہے۔

جب کہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کا عالمی چارٹ دیکھا جائے تو چین مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سرِفہرست ہے۔وہاں بیس سے اسی برس تک کے ایک سو اکتالیس ملین متاثرین ہیں۔دیگر بہتر ملین چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں بھی ذیابطیس ہے مگر وہ تشخیصی نظام کے مدار سے باہر ہیں۔چین کے بعد تعداد کے اعتبار سے انڈیا اور پاکستان کا درجہ ہے۔

آبادی کے تناسب سے ذیابطیس کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو پھر پاکستان پہلے، فرنچ پولینیشیا دوسرے اور کویت تیسرے نمبر پر ہے۔گزشتہ برس کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی اکتیس فیصد، فرنچ پولنیشیا اور کویت کی پچیس فیصد آبادی اس وبا کی لپیٹ میں ہے اور متاثرہ افراد میں لگ بھگ نوے فیصد کو ٹائپ ٹو ذیابطیس لاحق ہے۔

حیرت ناک بات یہ ہے کہ براعظم افریقہ کی محض ساڑھے چار فیصد آبادی میں ذیابطیس کی علامات پائی گئی ہیں۔ ایک سبب شہری آبادی کی کم تعداد اور موٹاپے کی کم شکایت ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہو مگر اکثریت کو اس کا ادراک نہ ہو یا پھر تشخیصی سہولتوں تک رسائی نہ ہو۔

جب تک کوئی تسلی بخش سستا علاج یا طریقہ وسیع پیمانے پر دریافت نہیں ہو جاتا تب تک ایک سادہ و متحرک زندگی اختیار کرنے سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ کیونکہ ذیابطیس کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ کئی جسمانی پیچیدگیوں کی جڑ ہے۔

جنھیں گمان ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔ انھیں اس خوش فہمی میں مسلسل رہنے کے بجائے سال میں کم از کم ایک بار ضرور اپنا معائنہ کروانا چاہیے اور جو مبتلا ہیں انھیں اضافی جسمانی پیچیدگیوں سے بچنے اور صحت کے معیار کو مزید ابتری سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر کو روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔

اس وقت صحت کے کل عالمی بجٹ کا چھ فیصد (نو سو چھیاسٹھ بلین ڈالر ) ذیابطیس کی روک تھام اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر جسمانی پیچیدگیوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر صرف ہو رہا ہے۔اس اضافی خرچے سے بچنا ممکن ہے اگر دوسروں کے معاملات کے ساتھ ساتھ ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لی جائے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔