جوبائیڈن اور شی جن پنگ ملاقات

دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات تقریبا تین گھنٹے جاری رہی


Editorial November 16, 2022
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات تقریبا تین گھنٹے جاری رہی۔ فوٹو: گیٹی امیجز

انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں امریکی صدر جوزف بائیڈن نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے دوران انھیں بتایا کہ امریکا چین کے ساتھ بھر پور مقابلہ جاری رکھے گا لیکن یہ مقابلہ ہرگز تنازع میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔

بالی میں ملاقات کے دوران دونوں صدور نے ہاتھ ملایا، بائیڈن نے کہا کہ سپر پاورزکی ذمے داری ہے کہ دنیا کو دکھائیں کہ اپنے اختلافات کو سنبھال سکتے ہیں اور آپسی مقابلے کو تنازع میں تبدیل ہونے سے روک سکتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات تقریبا تین گھنٹے جاری رہی ، تائیوان کے سوال پر چینی صدر نے کہا کہ تائیوان چین کے بنیادی مفادات کا مرکز ہے، تائیوان سرخ لکیر ہے جو امریکا چین تعلقات میں عبور نہیں ہونی چاہیے۔

کسی کا تائیوان کو چین سے علیحدہ دیکھنا چینی قوم کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگا، تائیوان کا مسئلہ حل کرنا چین کا اندرونی معاملہ ہے۔

گزشتہ دنوں پہلے سے کشیدگی کا شکار چین ، امریکا تعلقات مزید خدشات و خطرات کا شکار ہو گئے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید دونوں ممالک کے درمیان تائیوان کے مسئلے پر تنازع شدت اختیارکرکے جنگ کی صورت نہ اختیار کرلے۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد یقینا امید ہو چلی ہے کہ صورت حال خطرناک حد پار نہیں کرے گی ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا چین اور امریکا کے درمیان تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ بہتر ہوں گے یا نہیں؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ چین کو محدود کرنے کی پالیسی پر ہی کاربند رہتی ہے یا نہیں۔ دراصل اس پالیسی کی بنیاد چین کو ایک اسٹرٹیجک حریف اور ایک چیلنج کے طور پر دیکھنا ہے۔

اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ امریکی ترجیحات کے حوالے سے چین کس حد تک پیچھے ہٹتا ہے۔ دوسری جانب اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ ایک موجودہ سپر پاور کے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب وہ کسی نئی سپر پاور کو اپنے عالمی غلبے کے لیے خطرہ سمجھے۔ ہنری کسنجر نے اس حوالے سے حال ہی میں کہا کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر دنیا کی قسمت کا فیصلہ امریکا اور چین کے مابین تعلقات نے ہی کرنا ہے۔

عالمی منظر نامے پر چین اور امریکا کے مابین پاور گیم جاری ہے اور دنیا Unipolarity سے Multipolarity کی طرف جا چکی ہے تو تائیوان ، اس خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے امریکا کے لیے اہم ہتھیار ہے۔

امریکا تائیوان کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے اور یہ جانتا ہے کہ تائیوان ایک ایسا علاقہ ہے جس کے اثرات جنوبی جاپان سے شروع ہوتے ہوئے فلپائن اور بحیرہ جنوبی چین تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ سارے علاقے امریکا کے اتحادیوں سے بھرے ہوئے ہیں، اگر یہاں چین کا اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے تو اس صورت میں امریکا کی خطے میں تزویراتی حیثیت میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی۔

تائیوان پر اثر و رسوخ بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی اور مشرقی سمندروں میں طاقت کا توازن اس کے حق میں ہوگا جس کا اثر و رسوخ یہاں زیادہ ہوگا ، اسی لیے امریکا اور چین کے درمیان طاقت کے حصول کو برقرار رکھنے کی کشمکش جاری رہتی ہے ، جس طرح سرد جنگ میں کیوبا امریکا مخالف کا کردار رہا ہے اسی طرح امریکا تائیوان کو چین کے خلاف نئی سرد جنگ میں چین کے لیے کیوبا دیکھنا چاہتا ہے۔

اس خطے میں First island chain ہونے کی وجہ سے تائیوان کو امریکا کی خارجہ پالیسی میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی انڈو پیسفک پالیسی میں بھی تائیوان کا مرکزی کردار ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی امریکا کا تائیوان پر انحصار ہے، اگر تائیوان چائنہ کے زیر انتظام آ جاتا ہے تو چین اکیلا اس میدان میں Dominate کر جائے گا جو کہ امریکا کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔

عالمی سطح پر تائیوان کی معیشت بہت اہمیت کی حامل ہے جو کہ 22 ویں سب سے بڑی اکانومی ہے، تائیوان عالمی منڈی میں الیکٹرانک آلات کا بہت بڑا Exporter ہے جس کی اکانومی کا حجم 2021 میں 790 بلین ڈالرز کے قریب ہے۔

چین تائیوان کو اپنا حصہ تصورکرتا ہے جب کہ تائیوان خود کو ایک علیحدہ ریاست مانتا ہے اور اس معاملے پر فریقین کے درمیان طویل عرصے سے تنازع چلا آ رہا ہے۔ تائیوان ، چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تائیوان پر کنٹرول چین کے لیے سمندری پانی اور تجارتی راستوں خصوصاً بحیرہ جنوبی چین میں جانے والے راستوں پر کنٹرول آسان بناتا ہے۔

آبنائے تائیوان کو خطے کی مصروف ترین شپنگ لین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جہاں ایشیا، مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کی طرف چینی، جاپانی اورکوریائی تجارت کا تقریباً 90 فیصد حصہ اسی آبنائے سے گزرتا ہے ، چونکہ چین کی تمام بڑی بندرگاہیں Yellow Sea میں واقع ہیں، اس لیے اس کی تجارت چین کے لیے خاصی اہمیت رکھتی ہے۔

ایک طرف چین آبنائے تائیوان کے ذریعے تجارت کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف آبنائے سے گزرنے والی اپنی شپنگ لین کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، چونکہ چینی معیشت کا انحصار برآمدات پر ہے۔

اس لیے چین کو تائیوان پر کنٹرول کی ضرورت ہے تاکہ اس تجارتی راستے پر مکمل کنٹرول ہو ، اگر تائیوان چین کا حصہ ہوتا تو چین بحرالکاہل کے علاقے میں اپنی طاقت کو مزید آسانی سے آگے بڑھانے کے لیے آزاد ہوتا اور اس علاقے میں واقع گوام اور ہوائی جیسے امریکی فوجی اڈوں کو بھی خطرہ لاحق ہوتا۔ اس کے علاوہ چین کا اثرورسوخ جاپان، فلپائن اور دوسرے آسیان ممالک تک بڑھ جاتا۔ تائیوان کا مؤقف، چائنہ کے مؤقف سے یکسر مختلف اور متضاد ہے۔

تائیوان خود کو ایک خود مختار اور جمہوری ملک سمجھتا ہے اور چین کی ''ون چائنہ پالیسی'' کو مسترد کرتا ہے۔ تائیوان سرکاری سطح پر خود کو ریپبلک آف چائنہ ڈکلیئرکرتا ہے۔ تائیوان کا سرکاری مؤقف یہی ہے کہ'' بیجنگ میں حکام نے کبھی تائیوان یا ROC کے زیر انتظام دیگر جزائر پر خودمختاری کا حق استعمال نہیں کیا۔''

تائیوان کے معاملے پر بین الاقوامی برادری میں بھی یکساں مؤقف نہیں پایا جاتا ہے لیکن اقوام متحدہ ، امریکا اور روس سمیت اکثریت ممالک چین کی '' ون چائنہ پالیسی'' کی حمایت کرتے ہیں اور ان ممالک کے تائیوان کے ساتھ باضابطہ کوئی سرکاری سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں۔

تائیوان خانہ جنگی کے دوران 1945 میں اقوام متحدہ کے بانی اراکین میں شامل تھا، لیکن 1971 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 25 اکتوبر 1971میں 2758ویں قرارداد کی منظوری کے بعد عوامی جمہوریہ چین نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں ریپبلک آف چائنہ (تائیوان) کی جگہ لے لی۔ اقوام متحدہ نے سرکاری طور پر '' ون چائنہ پالیسی'' کو قبول کیا ہے۔

عالمی برادری کی اکثریت ممالک کی تعداد جوکہ 150 سے زائد ہیں ''ون چائنہ پالیسی'' کی حامی ہے اور ان کے تائیوان کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں۔

ان میں روس، ایران، ترکی ، سعودی عرب ، افغانستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، میانمار، نیپال، پاکستان اور سری لنکا وغیرہ شامل ہیں، دوسری طرف ایک درجن کے قریب ممالک تائیوان کو بطور آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کرتے ہیں اور ان کے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔

پاکستان، تائیوان معاملے پر چین کی ''ون چائنا پالیسی'' کی حمایت کا اعلان پہلے ہی کرچکا ہے ، پاکستانی موقف کے مطابق تائیوان صورتحال کے علاقائی امن و استحکام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

دنیا پہلے ہی یوکرین کے تنازعے کی وجہ سے سلامتی کی ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے، اس نئے بحران کے عالمی امن ، سلامتی اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان بین الریاستی تعلقات اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر پختہ یقین رکھتا ہے۔بظاہراً چین اور تائیوان کا تنازعہ صرف دو پارٹیوں کا ہے لیکن عالمی سطح پر کئی ممالک اس تنازعہ سے براہ راست وابستہ ہیں، خصوصاً حالیہ کشیدگی کے باعث تائیوان ایک بار پھر امریکا اور چینی قیادت کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ کے طور پر ثابت ہو رہا ہے۔

چین اگر مستقبل میں تائیوان کو حاصل کرنے کے لیے عسکری طاقت کا استعمال کرتا ہے تو چین کو نہ صرف تائیوان کی عوام کو پبلک سپورٹ حاصل کرنا مشکل ہوگا بلکہ عالمی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

جنگ، مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافہ کرتی ہے اور شدید تباہی لاتی ہے۔ چین تائیوان تنازعہ کا پر امن حل ہی کشیدگی سے بچنے کا واحد حل ہے۔

تائیوان چونکہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کا ایک عنصر بن چکا ہے اس لیے اگر یہ تنازعہ شدت اختیارکرتا ہے تو اس کے دیرپا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس سے نہ صرف معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ کورونا وباء سے سنبھلنے والی عالمی معیشت کو بھی دھچکا لگے جس کے نتیجے میں کرہ ارض پر بسنے والے ایک عام فرد کی زندگی شدید متاثر ہوگی جیسا کہ روس یوکرین جنگ کی صورت میں ہو رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں