یہ وقت بھی گزر جائے گا
آج ہم دیکھتے ہیں کہ سیلاب زدہ عوام کے حکمرانوں کے سامنے ترو تازہ گلدستے اور منرل واٹر کی بوتلیں ہوتی ہیں
وطن عزیز میں ہنگامہ خیزی جاری ہے۔ سیاست اور صحافت کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ سیاست دان اپنی کہہ رہے ہیں اور صحافی اپنی سنا رہے ہیں ۔ اس میں اگر کوئی خاموش ہے تو وہ عوام ہیں اور یہ خاموشی یقینا کسی طوفان کا پیش خیمہ ضرور بنے گی۔
آج کل خبروں کا اژدہام ہے لیکن ان خبروں میں ایک خبر جو کہیں دب گئی ہے وہ ہمارے ان بھائیوں کی ہے جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو ئے جن کی خبریں کچھ روز تک اخباروں اور ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر چھائی رہیں لیکن پھر ہم سب حسب روایت اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کو بھول گئے اور آج جب سردی کا موسم سر پر آن پہنچا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ اب بھی سندھ اور بلوچستان میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں سیلاب کا پانی موجود ہے اور لوگ بے یارو مددگار ہیں۔
مٹھی بھر حکومتی امداد وقتی طور پرتو ان کے پاس پہنچ گئی تھی لیکن حکومت کی جانب سے ان کے مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا جس کی وجہ ان کی کسمپرسی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
قدرتی آفات کسی کے اختیار میں نہیں، انسانی تاریخ ان آفات کے ذکر سے بھری ہوئی ہے لیکن جب کسی قوم پر ایسے انسانوں کی حکومت ہوتی ہے جو خود کو بھی انسان ہی سمجھتے ہیں کوئی بالاتر مخلوق نہیں تو وہ ان آفت زدہ عوام کے پاس سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ وہ بھی ان کی طرح آفت زدہ محسوس کر رہے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے حاضر ہیں ۔
ہمارے روشن خیال اصحاب اگر برا نہ مانیں تو میں حضرت عمر خطاب ؓ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کے دور حکومت میں قحط کی صورت میں آفت آگئی تھی تو یہ حکمران قحط زدہ عوام سے زیادہ خود قحط زدہ ہو گیا ۔ بھوک اور کم خوراک کی وجہ سے رنگ سیاہی مائل ہوگیا، لوگوں کو بہت فکر ہوئی ، چند جید صحابہ نے خلیفہ سے کہا کہ چلیے معمول کی خوراک نہ سہی لیکن اپنے معمولات کو سر انجام دینے کے لیے کچھ کھا پیا لیا کیجیے، ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔
جواب ملا ، مسلمان بھوکے مر رہے ہوں اور ان کے معاملات کا ذمے دار حکمران اپنے رنگ کی فکر کرتا پھرے ۔ روایت ہے کہ ایک بار انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا خربوزے کی پھانک منہ میں لیے ہوئے ہے، انھوں نے ڈانٹ کر کہا کہ تمہارے بھائی اور ہمجولی بھوکے مر رہے ہیں اور تم خربوزے کھا رہے ہو۔
ریاست مدینہ کے حکمران کی یہ داستان بڑی طویل ہے، قحط برداشت سے باہر ہو گیا تو لوگوں نے حضرت عمرؓ کو یاد دلایا کہ حضورﷺ کی ایک چادر آپ کے پاس موجود ہے، اسے سر پر رکھیں اور اس کی برکت سے نماز استسقاء ادا کریں ۔کیا منظر تھا صرف مسلمان ہی اس کا تصور کر سکتے ہیں، ابھی نماز ختم نہیں ہوئی تھی کہ سیاہ گھٹائیں امنڈ آئیں اور بارش شروع ہو گئی۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ سیلاب زدہ عوام کے حکمرانوں کے سامنے ترو تازہ گلدستے اور منرل واٹر کی بوتلیں ہوتی ہیں اور اعلان یہ کیا جارہا ہوتا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرین کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو میں' والا معاملہ ہو گیا ہے، اس وقت ہم پر ڈالر کی حکمرانی ہے اور اس کی قیمت کے ساتھ ہماری قیمت وابستہ ہو چکی ہے اس کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوتاہے ہمارے کئی لیڈروں کی بیرونی ڈالری دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن گھروں میں پڑے پاکستانیوں کی گھٹ جاتی ہے بلکہ اب تو نوبت گھٹنے سے بھی کہیں نیچے پہنچ چکی ہے۔
کس کس دکھ کا ذکر کیا جائے اور کتنی مایوسی پھیلائی جائے لیکن سب ہمارے سامنے کی باتیں اور حالات ہیں جن کو ہم بھگت رہے ہیں۔ ایک آخری قصہ بھی سن لیجیے ۔ ایک بادشاہ کو افسردگی لاحق ہوگئی ۔
اس کی غمزدگی کو دور کرنے کے لیے دانشوروں اور ارباب حکومت نے کسی صوفی کے مشورے سے طے کیا کہ بادشاہ کو کسی خوش باش شخص کی قمیض پہنائی جائے چنانچہ ایسے شخص کی تلاش شروع ہوئی جو بڑی تگ ودو اور محنت کے بعدایک کھیت میں ملا جہاں وہ بکریاں چرا رہا تھا ۔ تلاش کرنے والوں نے اس کی تفتیش کی تو اسے غم جہاں سے بے نیاز پایا، اس پر انھوں نے اس کی قمیض مانگی لیکن اس نے بڑی معذرت اور شرمندگی سے کہا کہ اس کے پاس تو سرے سے کوئی قمیض ہے ہی نہیں، بس اس دھوتی میں وقت گزر جاتا ہے ۔
یہ بات بہت مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ میری انگوٹھی کے نگینے پر کوئی ایسا جملہ لکھواؤ جسے میں پڑھ کر مطمئن ہو جایا کروں ۔چنانچہ اس کی انگوٹھی پر لکھا گیا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا تو زندگی کا راز ہی اس جملے میں ہے کہ کوئی بھی آفت آجائے وقت تو گزر ہی جاتا ہے، خواہ یہ وقت کسی بے رحم حکمران کے قبضے میں ہی کیوں نہ ہو۔