ایسا نہ کریں ورنہ…
آج پاکستان کے ایٹمی اثاثے اگر محفوظ ہاتھوں میں ہیں تو یہ ہماری جرأت مند اور غیرت مند فوج ہی کی مرہون منت ہے
ہر عروج کو زوال اور ہر پستی کو بلندی عطا کرنا میرے رب کی شان ہے، بے شک وہ جسے چاہے عزت سے سرفراز کر دے اور جسے چاہے ذلت کی گھاٹیوں میں اتار دے۔ وہ اپنے بندے اقتدار، مال وزر اور عزت و شہرت دے کر بھی آزماتا ہے اور اس سے یہ سب کچھ چھین کر بھی آزماتا ہے۔
پاکستان میں بھی ایسے کردار موجود ہیں ہے ، جنھیں اﷲ نے عزت ، شہرت، دولت حتیٰ کہ اقتدار تک بخشا تو ان کی گردن میں تکبر کا سریا آگیا اور اﷲ نے جب اقتدار محروم کردیا تو اﷲ سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی طلب کرنے کے بجائے '' میں نہیں مانتا ''کی گردان شروع کردی۔
پاکستان کے حکمرانوں کی بات کریں تو حقیقت سب کے سامنے ہے۔نہ ایوب خان نے اپنی غلطی مانی نہ یحییٰ خان نے، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنا خود احتساب نہیں کیا اور نہ ضیاء الحق نے ایسا کیا،نواز شریف اور بے نظیر نے بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھا ، جنرل پرویز مشرف کا تکبر بھی ہم نے دیکھا اور پھر زوال اور بیچارگی بھی ہم نے دیکھی ہے ۔ اب ہم نے عمران خان کے تکبر و نخوت کا بھی مشاہدہ کرلیا ہے اور زوال کے مناظر بھی ہمارے سامنے کی بات ہے۔
2009 میں پاکستانی سیاست میں جس ہائبرڈ جمہوریت کے قیام کے منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا، اب وہ فلاپ ہونے کے بعد کلوز ہونے جارہا ہے۔ضروری نہیں ہوتا کہ ہر پراجیکٹ ہی کامیاب ہو، کبھی کبھی پراجیکٹ اتنا ڈیڈ فلاپ ہو جاتا ہے کہ وہ پراجیکٹ بنانے والوں کے لیے بھی وبال جان بن جاتا ہے۔ ''پراجیکٹ عمران خان '' کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
جب تک منصوبہ ساز اپنے ہی منصوبے کی زد میں نہیں آئے تب تک انھیں ہوش نہیں آیا ۔تحریک انصاف کا مارچ اب تک کئی لوگوں کی جانیں لے چکا ہے اور عمران خان خود بھی قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے ہیں لیکن وہ لانگ مارچ جاری رکھنے پر بضد ہیں، لگتا ہے کہ وہ اقتدار کے چھن جانے کی وجہ سے غصے میں فیصلے کررہے ہیں۔
تحریک انصاف نے ریاست اور سیاست کو تلخی اور گلم گلوچ سے آلودہ کیا، تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے اس ملک کے سوشل فیبرک کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ نسل نو کے قلوب و اذہان میں سے دوسروں کا احترام کرنے کے سبق کو کھرچ کھرچ کر نکال دیا، اس کی جگہ بڑوں کی عزتیں اچھالنا، بدکلامی کرنا اور دلیل کے بجائے لڑنا جھگڑنا سکھایا گیا، یہ قوم جس کے جوانوں کو علامہ اقبال شاہین بنانا چاہتے تھے، انھیں کرگس بنا کر رکھ دیا گیاہے۔ اقبال کہتے ہیں:
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
تبدیلی کی آندھی کے بعد ہمیں اپنے بچوں کو دوبارہ شاہین بنانے میں بڑا وقت لگے گا۔ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بدزبانی، بہتان طرازی کرکے نسل نو کے ذہنوں میں زہر گھولنا ہے، جو آگ سے کھیلنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
1947 سے آج تک اس ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے تو وہ پاک فوج کے مرہون منت ہے۔ یہ فوج جو ہمارا فخر ہے، ہر دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے، اسے کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ بھارت اکھنڈ بھارت کا خواب لیے پاکستان کو آج بھی ختم کرنے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہے۔
ان عزائم کی راہ کوئی عمران خان نیازی، زرداری یا شہباز شریف سمیت کوئی سیاستدان نہیں روک سکتا ، سوائے پاک فوج کے یہ قوت و صلاحیت صرف اور صرف پاک فوج میں ہے۔ جو ہمیشہ پاکستان کے دشمنوں کی سازش کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی ہے، آیندہ بھی پاک فوج ہی ملکی دفاع کی ضامن ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کا موازنہ فوج سے کرنا بہت بڑا ظلم ہو گا، کیونکہ ہر فوجی اپنی جان کی بازی پر حلف دیتا اور اس ملک کی آبیاری اپنے خون سے کرتا ہے مگر اکثر سیاستدانوں کو قوم کی خاطر مچھر نے بھی نہیں کاٹا ہوگا ۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جنگی حکمت عملی اور ہتھیاروں کے انبار اپنی جگہ، فوج ہمیشہ جذبے سے لڑا کرتی ہے اور اس جذبے کی آبیاری کے لیے ہمیشہ فوج کو عوامی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔
1965کی جنگ میں قوم جب اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی تو چونڈہ کے محاذ پر اسی فوج کے جوان دشمن کے ٹینکوں تلے لیٹ گئے تھے اور پاک سرزمین پر پڑنے والے دشمن کے پاؤں اکھیڑ کر رکھ دیے تھے۔ آج عمران خان کی توپوں کا رخ پنڈی کی طرف ہے، خدا نخواستہ اگر قوم فوج کے خلاف کھڑی ہو جائے یا اس کے ذہن میں فوج کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کر دیے جائیں تو بتائیں ملک کاکیا ہوگا؟ یہ ہمارا المیہ ہے۔ سابق وزیر اعظم اپنے طرز سیاست کو تبدیل کریں، اس بیانیے کے ساتھ ان کی سیاست پاکستان میں نہیں چل سکتی۔
عمران خان اپنی تقریروں میں پاک فوج میں تقری کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہے ہیں، ان کے فالورز اپنے کپتان کی ہر بات پر بغیر سوچے سمجھے یقین کرتے لیتے ہیں اور اگر سڑکوں پر نہیں بھی نکلتے تو سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کر دیتے ہیں، حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ ایسے حالات دیکھ کر میرے ذہن میں بار بار حکیم محمد سعید شہید اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی پیش گوئیوں پر من و عن یقین ہوتا چلا جارہا ہے۔
پاک فوج اور آئی ایس آئی کے حوالے سے جو طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا اور پی ٹی آئی کے اسٹیجوں پر آج اٹھا ہوا ہے، ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اب بھی وقت ہے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن ریاست کو لچک دکھانے کے بجائے سنجیدہ ایکشن لینا ہوگا۔ پاک فوج ہمارے دفاع کی ضامن اور قوم کا غرور اور قومی ریڈلائن ہے۔ یاد رکھیں پاکستان کے دفاع کے لیے خطرات صرف بھارت سے ہی نہیں بلکہ اسرائیل، امریکا ،کئی مغربی ممالک اور شمال مغربی سرحد سے بھی ہیں۔
پاکستان اسلامی دنیا کا ایک طاقتور ترین ملک ہے جس کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ ایک طاقتور فوج کے حامل اسلامی ملک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، یہ بات پاکستان کے دشمنوں کو ہضم نہیں ہورہی اور نہ ہی ان ممالک نے آج تک ہمارے ایٹمی پروگرام کو دل سے تسلیم کیا ہے۔ انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرانے کے لیے سازشوں کے تانے بانے بنتے ہیں اور اس کی سیکیورٹی کے حوالے سے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ ان کا مقصد ہمارے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت ہرگز نہیں بلکہ اسے سرے سے ہی ختم کرنا ہے۔
آج پاکستان کے ایٹمی اثاثے اگر محفوظ ہاتھوں میں ہیں تو یہ ہماری جرأت مند اور غیرت مند فوج ہی کی مرہون منت ہے۔ اگر آج ہماری فوج کمزور ہوجائے تو دشمن قوتوں کو یہاں اپنا گھناؤنا کھیل کھیلنے کی پوری آزادی مل جائے گی۔ اس لیے عمران خان ہو یا کوئی اور سیاستدان ، کاروباری شخصیت ہو یا کوئی سیلبریٹی، اسے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ہمارے سیاستدان یہ بات یاد رکھیں، یہ پاکستان ہے، اسے سری لنکا نہ سمجھا جائے اور ان شاء اﷲ نہ یہ ملک سری لنکا بنے گا۔ یہاں آگ اور خون کا جو کھیل کھیلنے کی کوشش ہورہی ہے، اسے جتنی جلدی ممکن ہو ختم کردیا جائے، یہ سب کے لیے بہتر ہوگا ورنہ...