سیلاب زدگان تباہی کے کنارے پر

وزیر اعلیٰ اندرون سندھ سیلاب کے پانی کی نکاسی نہ ہونے کی ذمے داری ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کرتے ہیں


Dr Tauseef Ahmed Khan November 17, 2022
[email protected]

جواں سال صلاح الدین صدیقی کا تعلق سندھ کے ایک ترقی پسند خاندان سے ہے، وہ ضلع دادو کے گاؤں پاٹ میں پیدا ہوئے ، تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت شروع کی۔ انھوں نے اندرون سندھ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ افراد کی مدد میں اہم کردار ادا کیا۔

انسانی حقوق کی آگاہی کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (H.R.C.P) کی سالانہ کانفرنس میں صلاح الدین کی کاوشوں کو سراہا گیا۔ لاہور میں گزشتہ مہینہ کے آخری ہفتہ میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن حنا جیلانی نے صلاح الدین صدیقی کو خصوصی سند عطا کی۔

اندرون سندھ ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں ہائی ویز اور سڑکوں سمیت گھر ڈوب گئے تو ہزاروں افراد نے پناہ لینے کے لیے کراچی کا رخ کیا۔ ان میں سے بیشتر افراد کا تعلق بھان سعید آباد ، لاڑکانہ ، قمبر ، شہداد کوٹ، محراب پور، نوشہرو فیروز ، خیرپور ناتھن شاہ ، میہڑ اور دادو سے تھا۔

کراچی پہنچنے والے بیشتر افراد کی حالت قابل رحم تھی۔ نچلے متوسط اور نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد خالی ہاتھ اور ننگے پاؤںکراچی پہنچے تھے۔ صلاح الدین نے اپنے دوستوں کو ان افراد کی مدد کے لیے تیار کیا، انھیں سچل گوٹھ اور اطراف کے اسکولوں میں ٹھہرایا گیا۔

صلاح الدین اپنی اہلیہ کے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر سچل گوٹھ کے پرائمری اسکول پہنچے۔ انھوں نے میڈیا کے ذریعے ان بے گھر افراد کے حالات آشکارکیے اور کراچی کے شہریوں سے مدد کی اپیل کی۔

کراچی کی سول سوسائٹی کی تنظیموں اور عوام نے اس اپیل پر لبیک کہا۔ مظلوم طبقات کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے سرگرداں سجاد ظہیر ، ناصر منصور ، اقبال بٹ، قاضی خضر حبیب اور زہرہ خان نے کیمپوں میں مقیم ان افراد کی امداد کے کاموں کے لیے صلاح الدین کی مدد کی۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے روحِ رواں فیصل ایدھی نے امدادی کاموں کے لیے ایمبولینس کا انتظام کیا۔ یوں بہت سے افراد کوکراچی کے مختلف اسپتالوں میں طبی امداد دی گئی اور پناہ گزین خاندانوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی بندوبست کیا۔

صلاح الدین اور ان کے ساتھیوں نے حکومت کی امداد کے بغیر 45 دنوں تک سیکڑوں افراد کے لیے کھانے اور بستروں اور علاج و معالجہ کا انتظام کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے مخیر خاندانوں نے سیلاب زدگان کی ہر ممکن مدد کی مگر یہ ہزاروں افراد جب اپنے گھروں کو لوٹے تو پتہ چلا کہ دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود سیکڑوں گوٹھ اب بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خیرپور ناتھن شاہ ، دادو ، لاڑکانہ اور عمر کوٹ بارشوں کے پانی سے براہِ راست متاثر ہوئے۔

ایک غیر ملکی ریڈیو کے ہونہار رپورٹر ریاض سہیل نے لکھا ہے کہ خیر پور ناتھن شاہ کے ہاری دین محمد کا کہنا ہے کہ ڈھائی ماہ بعد اپنے گاؤں لوٹ رہے ہیں ، وہ کشتی میں سامان لاد کر جب اپنے گاؤں علی بخش پیر پہنچے تو پانی اسی طرح جمع تھا جیسے گوٹھ چھوڑتے وقت جمع تھا۔ ان کے سامان میں کوئی خیمہ وغیرہ نہ تھا، منتخب نمایندوں کے دروازوں پر دستک دی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

حکومت سندھ کی تیارکردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرین کے امدادی کیمپوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران 4 ہزار سے زائد بچے پیدا ہوئے ۔ اس رپورٹ میں عورتوں کی صحت کو ڈاکٹروں نے ہائی رسک قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یکم نومبر تک ان کیمپوں میں 6371 حاملہ عورتیں ہیں۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر ثاقب کا کہنا ہے کہ بیشتر خواتین خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔یہ عورتیں تیسرے درجہ کے شدید سٹریس کا شکار ہیں۔ خوراک کی کمی میں مبتلا عورتوں کے نوزائیدہ بچے پیدائش کیساتھ خوراک کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور بیشتر عورتوں اور نوزائیدہ بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں اور مختلف امراض میں مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

سیلاب زدگان کے لیے ایک مسئلہ تو اپنے مکانات کی تعمیر ہے، پھر نئی فصل کے لیے زمین کی دستیابی بھی اہم مسئلہ ہے۔ ایک اور مسئلہ ان افراد کے مال مویشیوں کی ہلاکت کا بھی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ افراد بینک سے قرضہ لے کر کھاد اور بیج خریدتے ہیں۔ اب بینکوں نے قرضوں کے ریکوری کے نوٹس جاری کردیے ہیں۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی بنا پر اندرون سندھ غربت کی شرح 75.50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ میں غربت کی مجموعی شرح 43 فیصد ہے۔ مراد علی شاہ نے غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے افراد کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے ملازمتوں کی نئی آسامیاں پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نجی شعبہ میں سالانہ 6 لاکھ سے زائد ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے 6 سے 7 فیصد سالانہ ترقی کی ضرورت ہے۔

وزیر اعلیٰ اندرون سندھ سیلاب کے پانی کی نکاسی نہ ہونے کی ذمے داری ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کرتے ہیں مگر ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کی حکومت کی طرز حکومت کو بہتر بنانے میں ناکامی، محکمہ آبپاشی کو جدید آلات اور اعلیٰ تعلیم یافتہ عملہ کی فراہمی میں ناکامی اور مسلسل سیاسی مداخلت کی سزا کروڑوں افراد کو مل رہی ہے۔

یہ ماہرین کہتے ہیں کہ دریائے سندھ سے مٹی نکالنے کا کام گزشتہ 10برسوں سے نہیں ہوا ، یوں دریا میں مٹی کے پہاڑ موجود ہیں جس کی بناء پر پانی کے سمندر میں جانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ سیلاب کے دوران بہت سے افراد کا بیانیہ ہے کہ قدرتی راستوں پر مختلف نوعیت کی رکاوٹیں قائم ہوئیں، یوں پانی کے دریا اور دریا سے سمندر میں پانی کا عمل مسلسل تاخیر کا شکار رہا۔ پانی کی نکاسی کے جدید ترین نظام پر کوئی غور و فکر نہ ہوا۔

یہ بات عام ہے کہ پانی کے بہاؤ کو بہتر بنانے، دریائے سندھ اور نہروں کی صفائی، پشتوں کی مرمت کے لیے بجٹ میں ہر سال کروڑوں روپے رکھے جاتے ہیں۔ یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے اس کا جواب شاید وزیر اعلیٰ کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی ذمے داری صنعتی ممالک پر ہے مگر ایک اچھی طرزِ حکومت اور جدید آلات کی مدد سے قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے مگر سندھ اچھی طرزِ حکومت سے محروم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں