دہشت گردی کی لہر
وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے
صوبہ خیبر پختون خوا کے دو الگ الگ مقامات پر دہشت گردوں کے حملے میں چھ پولیس اہکار اور دو فوجی جوان شہید ہوگئے ہیں۔ ایک دہشت گرد بھی مقابلے میں مارا گیا۔ یہ واقعات ضلع لکی مروت کے علاقے تھانہ ڈاڈیوالہ عباسیہ روڈ پر اور ضلع باجوڑ کے علاقہ ہلال خلیل کے علاقے میں پیش آئے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مادر وطن پر جان قربان کرنے والے بیٹوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے ، انھوں نے مزید کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں اور پورا پاکستان دہشت گردی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا۔
دہشت گردی کے خلاف ہم نے ایک طویل جنگ لڑی ہے اور ملک میں امن و امان کی بحالی میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور اپنی جانیں مادر وطن پر قربان کرکے امن بحال کیا ہے لیکن حالیہ دنوں کے دوران ملک کے بڑے شہروں سمیت زیادہ تر خیبر پختونخوا کے اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ ان واقعات میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے ، جس کے دوران ملک میں پولیس اور فوج کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان سوالات کا جواب جاننے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی صورت حال میں بتدریج کیسے تبدیلی آئی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت برسراقتدار آنے سے پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہوجائے کیونکہ امید کی جارہی تھی کہ طالبان حکومت پاکستان کی مدد کرے گی جب کہ ایک مکتبہ فکر کا ماننا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے زیادہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔
ایسے میں افغانستان کی جیلوں میں قید تحریک طالبان پاکستان کے اراکین کی رہائی کی خبریں اور مناظر سامنے آئے جن کے بعد گزشتہ سال ہی پاکستان کے شمالی مغربی سرحدی علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر ہے ممکن ہے کہ جلد ہی ختم ہو جائے لیکن مکمل طور پر دہشت گردی تب ہی ختم ہوگی جب افغانستان کی طالبان حکومت ٹی ٹی پی کو ختم نہیں کرے گی ، اب تو یہ واضح ہورہے رہا ہے۔
ان دونوں کے باہم رابطے شروع دن سے ہیں۔ افغان طالبان کے اندر ٹی ٹی پی کے لیے اسی وجہ سے حمایت ہے، اگر دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ افغانستان کی حکومت محسوس کرتی ہے اگر اس نے ٹی ٹی پی کے خلاف سخت قسم کا کریک ڈاؤن کیا تو خطرہ ہے کہ ٹی ٹی پی داعش اور دیگر جنگجو گروپس سے ہاتھ ملا سکتی ہے اور یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ افغان طالبان کے اندر موجود گروہ بندی کھل کر سامنے آ سکتی ہے جو اس وقت کوئی نہیں چاہتا۔
حالیہ دہشت گرد حملوں میں تیزی کو مذاکرات میں ناکامی کے ردعمل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پچھلے سال کابل میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جیلوں سے کئی ہزار قیدی آزاد ہوئے ہیں تو ان میں بھی کئی سو کا تعلق ٹی ٹی پی سے تھا۔ ان سب کو ملا کر دیکھا جائے تو حالات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
سوات کے عوام 2008 اور 2009 میں دہشت گردی کے واقعات سے اتنا تنگ آچکے ہیں کہ اب وہ دوبارہ اس دلدل میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ اس لیے دہشت گردی کے واقعات عوام میں تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے دہشت گردی کے کنٹرول کے لیے کئی کوششیں کی گئیں۔
اس ضمن میں افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات بھی ہوئے اور کچھ عرصے تک سیز فائر بھی رہا ۔ تاہم خیبر پختونخوا کے عوام یہ سوال کرتے نظر آرہے ہیں کہ کیا انھیں پچھلی بار کی طرح گھر بدر ہونا پڑے گا؟ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر کئی ممالک اس بات کے خواہش مند ہیں کہ دہشت گرد گروہ اپنی سرگرمیاں اسی طرح جاری رکھیں تاکہ وطن عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کیا جاسکے ۔
اس لیے دہشت گرد تنظیموں، ان کے سہولت کاروں ، فنانسرز اور ہنڈلرز کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک بڑا آپریشن نہایت ضروری ہے۔