جنگ نہیں امن جی 20 اجلاس کا اعلامیہ
جوہری اسلحے کے استعمال کو ناقابل قبول قرار دیا گیا
انڈونیشیا کے جزیرہ بالی میں ہونے والی جی 20 سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں جوہری اسلحے کے استعمال کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے جنگوں کا پر امن طریقے سے سدباب پر زور دیا گیا، موجودہ دور جنگوں کا دور نہیں ہونا چاہیے۔
ہمیں عالی غذائی تحفظ کے حوالے سے موجودہ پیش رفت پر گہری تشویش ہے اور خاص طور پر اس موضوع پر نازک حیثیت رکھنے والے ممالک کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضمانت دی گئی۔
عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی جاری دوڑ کے خلاف دنیا میں دیرپا امن کے قیام کے لیے جی 20 سربراہی کا اعلامیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں تیزی ہی کا نتیجہ ہے کہ دنیا تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے۔
اس سال فروری کے اواخر میں روسی صدر پیوٹن نے جب ملکی افواج کو یوکرین پر چڑھائی کا حکم دیا، تو اس کے بعد شروع ہونے والی جنگ ابھی تک ختم نہیں ہو سکی ہے۔ اس دوران جب صدر پیوٹن نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی بھی دے دی، تو جیسے جوہری تخفیف اسلحہ کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔
رواں سال ، جرمنی میں بیُوشل کے مقام پر امریکی جوہری ہتھیاروں کو بدلنے کا عمل آغاز ہوچکا ہے، وہاں اب تک موجود ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ جدید B61-12 طرز کے جوہری ہتھیار ذخیرہ کیے جائیں گے۔
اس طرز کے نئے ایٹم بم نہ صرف اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے گائیڈڈ ہوں گے بلکہ ان کی ممکنہ ہلاکت خیزی کا دائرہ بھی بڑا وسیع اور متنوع ہوگا۔ یہ نئے امریکی ایٹم بم 0.3 سے لے کر 340 کلو ٹن تک کی طاقت کے حامل ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہر ناگاساکی پر ''فیٹ مین'' نامی جو ایٹم بم گرایا تھا، اس کی طاقت صرف 25 کلو ٹن تھی۔
امریکا اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید سے جدید تر بنانے کے لیے سالانہ تقریبا 10 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ جرمنی، جو خود تو کوئی ایٹم بم نہیں بناتا، انتہائی جدید اور F-35 طرز کے ان امریکی جنگی طیاروں کی خرید پر اربوں یورو خرچ کر رہا ہے، جن کی مدد سے یہ نئے امریکی ایٹم بم اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں 12 ہزار 705 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جن میں سے 90 فیصد سے زائد صرف دو ممالک روس اور امریکا کے پاس ہیں۔ ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید تر بنانے میں مگن ہیں۔
وہ نہ صرف اپنے ہاں پہلے سے موجود ایسے ہتھیاروں کی نئی ورائٹی تیار کر رہی ہیں بلکہ ساتھ ہی نت نئی اقسام کے نئے ہتھیار بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سب ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے۔
عالمی سطح پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ میں جو ایک ملک باقی سب ایٹمی طاقتوں سے مختلف اور تیز رفتاری سے کام کرتا نظر آتا ہے، وہ چین ہے۔
سپری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تک روس کے پاس 4477 جوہری ہتھیار تھے اور امریکا کے پاس 3708 وارہیڈز۔ ان دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے چین 350 وارہیڈز کے ساتھ تیسرے، فرانس 290 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ چوتھے اور برطانیہ اپنے 180 نیوکلیئر وارہیڈز کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھا۔ پاکستان اور بھارت بھی اعلانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔
جنگ عظیم دوم میں امریکا کی جانب سے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرایا گیا۔ پہلا یورینیم پر منحصر بم 6 اگست 1945 کو جاپانی شہر ہیرو شیما پر گرایا گیا اور اس کا نام '' لٹل بوائے'' تجویز کیا گیا، جب کہ دوسرا اس کے تین روز بعد دوسرے جاپانی شہر ناگاساکی پر نازل ہوا جس کا نام '' فیٹ مین'' تھا اور یہ پلوٹونیم پر منحصر بم تھا۔
اس مہلک اور مہیب اسلحہ کے استعمال نے 100000 سے 200000 انسانوں کو تو آن کی آن میں ہی فنا کر دیا اور بعد میں اس تعداد میں مزید ہلاکتوں نے اضافہ کیا، عرصہ تک معذور اور سرطان زدہ لٹل بوائے پیدا ہوتے رہے۔ اگر ہم دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو خون آشامی و درندگی سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جوہری اسلحہ کی تیاری کو ترک کرکے یہ رقم دنیا سے غربت کے خاتمے پر خرچ کرنا ہوگی۔