آہ غزل سنگر ظفر رامے بھی رخصت ہوا
ظفر رامے نے غزل کی گائیکی میں ایک مزدور کی طرح محنت کی تھی
گلوکار ظفر رامے غزل کی گائیکی کا ایک ایسا روشن چراغ تھا جو برسوں سے دنیائے موسیقی کو اپنی آواز سے جگمگا رہا تھا مگر وہ بھی اس فانی دنیا کا حصہ تھا یہاں جو انسان آتا ہے وہ جانے کے لیے آتا ہے مگر جو اچانک ہنستے مسکراتے اس دنیا کو چھوڑ دیتا ہے وہ اپنے چاہنے والوں کو دکھ کے سمندر سے دوچار کردیتا ہے۔
ظفر رامے نے غزل کی گائیکی میں ایک مزدور کی طرح محنت کی تھی۔ وہ شب و روز موسیقی میں ڈوبا اور سروں میں کھویا رہتا تھا۔
میرے امریکا آنے کے بعد بھی میرا اس سے رابطہ ٹوٹا نہ تھا میں اس کی اور وہ میری گڈ بک میں ہمیشہ رہا۔ میں جب بھی کراچی جاتا تھا ایک فون کرتا اور وہ میری ہر تقریب میں اپنی تمام مصروفیت چھوڑ کر آتا تھا وہ جب بھی ملتا جی جان سے ملتا تھا جس رات وہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ ہنس رہا تھا ، کھیل رہا تھا کسی کے تصور میں یا گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ ہنستا مسکراتا شخص دوسری صبح خاموشی کے ساتھ موت کی چادر لپیٹے دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔
سریلے سہانے سفر کا مسافر بھی رخصت ہوا ہے
ظفر رامے مرکر بھی گیتوں کی دنیا میں زندہ رہے گا
کراچی کے فنکشنوں اور موسیقی کی محفلوں کی وہ بھی ایک گہری پہچان تھا۔ ایک زمانہ تھا جب کراچی موسیقی اور غزل کی محفلوں کا گڑھ تھا۔ لاہور سے بھی فنکار شہرت حاصل کرنے اور پیسہ کمانے کراچی آتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب کراچی کی ہر شام فنکاروں سے سجی رہتی تھی ، ایک طرف بے شمار نوجوان گلوکار اور فنکار تھے اور دوسری طرف گلوکار ایس۔ جی جون اورگلوکار احمد رشدی کی شہرت کے چرچے تھے۔ گلوکار ایس۔ جی جون اور گلوکار احمد رشدی نے ریڈیو سے اپنی گائیکی کا آغازکیا اور پھر یہ دونوں فنکار بھی کراچی کے فنکشنوں اور محفلوں کی جان بن گئے تھے۔
پھر جب احمد رشدی کراچی سے لاہور شفٹ ہوگئے اور فلمی دنیا میں جاکر وہ وہاں چھاگئے تھے تو کراچی میں بہت سے نوجوان گلوکار احمد رشدی کے مشہور گیتوں سے فنکشنوں میں اپنے لیے راہ بناتے تھے اور شہرت حاصل کرنے لگے تھے۔
ظفر رامے بھی ایک ایسا ہی گلوکار تھا پھر اس نے اپنی راہ الگ بنائی اور غزل کی گائیکی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ یہ مشکل سفر تھا مگر ظفر رامے نے مسلسل ریاض کے ساتھ غزل کی گائیکی میں بھی اپنا رنگ جمانا شروع کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مہدی حسن کی غزلوں نے ایک دھوم مچائی ہوئی تھی وہاں ہر غزل سنگر اور تمام بڑے بڑے گلوکار مہدی حسن کی آواز کے دیوانے تھے۔
ممبئی انڈیا کی لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر بھی مہدی حسن کی آواز کی دیوانی تھیں۔ اسی دوران ہندوستان میں مہدی حسن سے متاثر ہوکر غزل کی گائیکی میں جگجیت سنگھ کا نام ابھرتا ہوا اس طرح منظر عام پر آیا کہ اس کی غزلوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی اپنی گائیکی سے لاکھوں دلوں کو موہ لیا تھا۔
اس دور میں اس کی گائی ہوئی غزلوں ، گیتوں کے ساتھ کئی نظموں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی اور پھر جگجیت سنگھ کی ان نظموں اور گیتوں کو گلوکار ظفر رامے نے اپنی گائیکی کا حصہ بنالیا تھا۔ دھیمے دھیمے سروں میں گانے والا جگجیت سنگھ ایک ایسا غزل سنگر بن کر موسیقی کی دنیا میں آیا تھا جس نے غزل کی گائیکی میں بڑے تجربے بھی کیے اور غزل کی گائیکی کو مشکل پسندی سے نکال کر آسانی کی طرف لے کر آیا ، جگجیت سنگھ کی وجہ سے ہی غزل کا نیا روپ مقبول ہوتا چلاگیا۔
ظفر رامے نے اسی انداز کو اپنایا اور وہ جگجیت سنگھ کی غزلیں اور نظمیں گاتا رہا۔ ظفر رامے بے تھکان رات رات بھر محفلوں میں گاتا تھا اور خوب رنگ جماتا تھا اور ہر محفل میں سامعین ظفر رامے سے جگجیت کی مشہور غزلیں اور نظمیں سنتے تھے خاص طور پر یہ ایک نظم:
بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے تم اتنی پریشان کیوں ہو
اس ایک نظم کے بعد ایک اور نظم ظفر رامے سے بہت سنی جاتی تھی جس کے بول تھے:
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
اور پھر ظفر رامے یہ نظمیں گاکر محفل لوٹ لیا کرتا تھا۔ ظفر رامے کو غزل کی محفلوں میں بڑی پذیرائی ملتی تھی۔ ظفر رامے کی آواز میں سروں کا وہ رچاؤ، گلے میں وہ لوچ اور آواز میں وہ کھرج بھی ملتی تھی جو ایک کامیاب غزل سنگر کی پہچان ہوتی تھی۔ ظفر رامے میری منگنی کے فنکشن ، میری شادی کے فنکشن پھر میرے بچوں کی شادی کے فنکشن تک میری دوستی میں شامل رہا ہے۔ وہ محفلوں میں میری غزلیں اور میرا لکھا ہوا مہدی حسن کا گایا ہوا گیت:
نیناں رے نیناں تم ہی برے
تم سے برا نہ کوئے
بھی بڑی خوبی اور سروں میں ڈوب کر گاتا تھا میری ایک غزل اس کی گڈ بک میں ہمیشہ تھی۔ وہ غزل بھی ظفر رامے بڑی محبت سے گاتا تھا اور ایک سماں باندھ دیتا تھا اس غزل کے اشعار تھے:
میری چاہت میں تم کمی نہ کرو
میری آنکھوں کو شبنمی نہ کرو
دوست ملتا ہے زندگی کی طرح
زندگی سے یوں دشمنی نہ کرو
ایک اور گیت کا بھی میں یہاں تذکرہ ضرور کروں گا جسے ہندوستان کے مشہور غزل سنگر پنکج اداس نے گایا تھا جس کے بول تھے:
موہے آئی نہ جگ سے لاج
میں اتنا زور سے ناچی آج
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
اس گیت کو پھر پاکستان کے بھی بے شمار گلوکاروں نے اپنایا مگر ظفر رامے کی گائیکی میں یہ گیت سن کر جدا ہی لطف آتا تھا یوں لگتا تھا جیسے ظفر رامے نے اس گیت کو بھی گھول کر پی لیا ہے۔ میں جب لاہور کی فلم انڈسٹری سے دس سال کے بعد واپس آیا کراچی تو میں نے بحیثیت کمرشل پروڈیوسر اپنے کیریئر کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ میرا ایک گیت فیملی پلاننگ کا گلوکار عالمگیر نے گایا جس کے بول تھے:
آج کے دور میں دو بچے
پل جائیں تو ہیں اچھے۔ بچے دو ہی اچھے !
پھر تحسین جاوید بھی پہلی بار میرا لکھا ہوا کمرشل جنگل گایا جس کے بول تھے:
آج کل ڈنٹونک کا بول بالا ہے
اور جب ظفر رامے سے میری واقفیت ہوئی تو اس نے بھی اپنا پہلا کمرشل گیت میفئر ٹافی کا میرا لکھا ہوا کیا پھر یہ میری گڈ بک میں آگیا تھا کئی کنٹرکشن کمپنیوں کے گیت سولو بھی اور گلوکارہ سارا حسن کے ساتھ بھی اس نے گائے اور کئی جنگل بناسپتی گھی اور دیگر بہت سی پروڈکٹس کے گیت گائے مگر اپنی توجہ ہمیشہ غزل کی گائیکی کی طرف بھی رکھی ۔
جب یہ پہلی بار امریکا گیا تو ٹیکساس کی ریاست کے کئی شہروں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ بنگلہ دیش میں بھی اس کی گائیکی کو بڑا پسند کیا جاتا تھا اور یہ کئی بار بنگلہ دیش بھی جاتا رہا ہے۔