’’الفتح‘‘ کا ارشاد
جب پیپلز پارٹی 1971 کو اقتدار میں آئی تو الفتح نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ناقد کا کردار ادا کرنا شروع کیا
یہ ماہ نومبر کی بھی عجیب بپتا ہے کہ جب بھی آیا تو کمیونسٹ تحریک یا سوشلسٹ خیالات کے افراد کے لیے سوہان روح ہی رہا ، ابھی روشن خیال احباب حسن ناصر کی جمہوری اور ترقی پسند فکر کو یاد ہی کر رہے تھے کہ معروف رسالے ''الفتح'' کے ممدوئے خاص اور تحریکی صحافی ارشاد راؤ بھی چل بسے۔
سینئر صحافی ارشاد راؤ کی ناگہانی موت سے ہمت جرات اور تحریکی صحافت کا وہ دور دھندلا ہوتا جا رہا ہے، جس میں منہاج برنا کی قیادت میں عالمی طور سے جانی جانے والی صحافتی جدوجہد سے عبارت صحافی تنظیم آمریت کے سامنے ایک متحرک فعال اور صحافتی حقوق کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی تنظیم تھی۔
یہ 1989 کے اس زمانے کا ذکر ہے جب بھٹو دور کے '' الفتح '' کو آمر ضیا الحق بند کر چکا تھا اور بے نظیر بھٹو نے عنان اقتدار سنبھال کر صحافی اور شاعر عارف امام کی ادارت میں '' جمہوری تنظیم '' کے نام سے پارٹی رسالے کا اجرا کیا تھا۔
اسی دوران پی پی میں مفاد پرستی کے عنصر نے پھر سر ابھارا اور '' جمہوری تنظیم '' کے ایڈیٹر عارف امام کے کام میں مشکلات اور کام سے روکنے کی کوششیں جاری رہیں ، جس پر عارف امام ، راقم الحروف اور ہمارے صحافی ساتھی سراج احمد ، بے نظیر بھٹو سے ملنے ٹرین میں سوار ہوکر اسلام آباد پہنچے، ہمارے آنے کی خبر جونہی پی پی کے سیکریٹری شیخ رفیق احمد کو ہوئی تو وہ فورا ہوٹل آگئے اور بے نظیر بھٹو سے ملاقات کروانے کا کہہ کر چلے گئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب وزیراعظم ہاؤس پنڈی میں ہوا کرتا تھا ، ان دنوں جب ہم تینوں ارشاد راؤ سے ملے تو وہ نہایت متحرک اور سرگرم تھے جیسا وہ صحافتی تحاریک میں تھے ، اس کے بعد آخری دنوں تک میرا اور ارشاد راؤ کا رابطہ فون پر رہا ، اسلام آباد آنے اور قیام کا وعدہ لیا مگر کسے معلوم تھا کہ ہمارا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے '' عالمی ضمیر کا صحافی'' قرار دیا جانے والا ارشاد راؤ ہم سب کو چھوڑ کر خاموشی سے عدم سدھار جاوے گا۔
'' الفتح '' کیوں جاری کیا گیا ، اس کے اجرا کا مقصد صحافت کی آزادی کے ساتھ عوامی جمہوری جدوجہد کو جوڑنا کیوں اہم مقصد تھا ، اس کی تاریخ بتاتے ہوئے سینئر صحافی مہ ناز رحمن کو لکھنا پڑا کہ '' جب پیپلز پارٹی 1971 کو اقتدار میں آئی تو الفتح نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ناقد کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔
محمود شام نے لکھا کہ حکومت اور پارٹی کے عہدے علیحدہ علیحدہ ہونے چاہئیں، اس پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ناقدین نے ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا کہ اس آرٹیکل کا مطلب پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے رہنما کو پارٹی کا چئیرمین بنوانا ہے۔''
جون 1972 میں کراچی سائٹ کے مزدوروں نے تنخواہوں کی ادائیگی اور حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے متحدہ مزدور تحریک کی جدوجہد کو الفتح نے مکمل کوریج دی جس پر پیپلز پارٹی کی حکومت ناراض ہو گئی۔ الفتح کا نیوز پرنٹ کا کوٹہ منسوخ کر کے اشتہارات پر پابندی لگا دی گئی۔ جب سندھ میں لسانی فسادات شروع ہوئے تو الفتح نے اس سارے تنازع میں سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دینے کے فیصلے کی بھرپور حمایت کی۔ الفتح کا موقف تھا کہ سندھی زبان ایک تاریخی زبان ہے۔
اس زبان کو اس کا حق ملنا چاہیے اور سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دینے سے اردو کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الفتح نے پیپلز پارٹی کی بنیادی اصلاحات خاص طور پر تعلیمی اداروں، بینکوں، صنعتی اداروں کو قومیانے، جاگیرداری کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کی بھر پور حمایت کی۔ جب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے بانی رکن حنیف رامے کو ہٹا کر جاگیردار صادق عباسی کو لایا گیا تو '' الفتح'' نے اس پالیسی کی بھی مخالفت کی۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1977 میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے امیدواروں کے چناؤ کا معاملہ بیوروکریسی اور ایجنسیوں کے سپرد کردیا۔ الفتح نے اس صورت حال کو پیپلز پارٹی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ الفتح کا تجزیہ تھا کہ پیپلزپارٹی اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور عوام میں فاصلے بڑھ رہے ہیں جس کا فائدہ رجعت پسندوں اور غیر سول قوتوں کو ہوگا۔ مستقبل میں الفتح کا یہ تجزیہ بھی درست ثابت ہوا۔
5 جولائی 1977 سے بد ترین آمریت کا دور شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے 1978 میں ہفت روزہ الفتح کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا ، پھر بھی الفتح کو جاری رکھنے کی کوشش کی گئی مگر حکومت نے ان کے ڈیکلریشن بھی منسوخ کر دیے۔ سندھ ہائی کورٹ نے 1980 میں الفتح پر عائد پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
یوں الفتح پھر شایع ہونے لگا۔ یکم جنوری 1981 کو الفتح پر چھاپہ مارا گیا اور ایڈیٹر، پبلشر اور دیگر عملے کو گرفتار کر لیا گیا اور یوں مظلوم طبقات کی آواز اٹھانے والا الفتح ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ صحافتی جدوجہد میں قید رہنے اور کوڑے کھانے والے سینئر صحافی خاور نعیم ہاشمی نے الفتح اور ارشاد راؤ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ '' میں اور میرا دوست نعیم پی ای سی ایچ ایس کراچی کی سڑکوں پر مٹر گشت کر رہے تھے کہ اچانک ایک سائن بورڈ دیکھ کر میں رک گیا ۔
یہ ہفت روزہ الفتح کا دفتر تھا، میرے علم میں تھا کہ الفتح کے ایڈیٹر محمود شام ہیں اور ان کے ساتھ مجلس ادارت میں ارشاد راؤ اور وہاب صدیقی ( فوزیہ وہاب والے نہیں) شامل ہیں، میں اپنے دوست کو لے کراس بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا ، دوسری منزل پر الفتح کے دفتر کا بورڈ آویزاں تھا ، اندر داخل ہوئے تو عجیب منظر تھا اور اس کمرے کے دفتر میں چاروں اطراف شوکت صاحب کے ناول '' خدا کی بستی'' کی جلدیں بکھری پڑی تھیں ، اور ایک آدمی شدید گرمی میں پنکھے کے بغیر چادر تانے چار پائی پر سویا ہوا تھا ، میں نے نعیم سے کہا کہ واپس چلتے ہیں۔
اس نے '' ہاں '' کہتے ہوئے وہاں سے خدا کی بستی کی چار جلدیں اٹھائیں، میں نے اس سے کہا کہ ایک جلد چرا لیتے، یہ چار کتابیں کیا کرو گے؟ اس نے جواب دینے کے بجائے اشارہ کیا کہ صبر کرو تھوڑی دیر بعد ہم فٹ پاتھ پر سجی ایک بک شاپ پر کھڑے تھے۔
نعیم نے ''خدا کی بستی'' کی چاروں جلدیں دکاندار کو بیچ دیں، اور ان پیسوں سے شاندار لنچ کرایا ، ہم اس دفتر میں دوسری مرتبہ پہنچے تو اس شخص کو خلاف معمول جاگتے ہوئے پایا۔ پاجامے کے اوپر بنیان، آنکھوں پر عینک اور منہ میں پان، کمزور سے جسم کے ساتھ وہ لیفٹ کا کوئی دانشور لگتا تھا یہ تھی ارشاد راؤ سے پہلی ملاقات۔ارشاد راؤ کی دوستی اور جیل یاترا کو یاد کرتے ہوئے اس صحافتی جدوجہد کے ساتھی سہیل سانگی نے ذکر کیا کہ'' ہمارے کامریڈ ، دوست ٹھاکر ارشاد راؤ بائیں بازو کے اس حصے تعلق رکھتے تھے جو چین نواز تھا جب کہ ہمیں ماسکو نواز کہا جاتا تھا۔ اس نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کی دوستی اور محبت میں کبھی کمی نہیں آئی۔
وہ بیگم نصرت بھٹو کے ترجمان بھی رہے۔ '' ضیا کے مارشل لا میں الفتح بند ہوا تو راؤ صاحب نے دوسرے جریدوں کے ڈیکلیریشن کے ساتھ ضیا مارشل لا کے خلاف صحافتی محاذ پر جدوجہد جاری رکھی۔ پھر گرفتار ہوگئے اور کئی ہفتے تک عقوبت خانوں میں ٹارچر کا سامنا کیا ، میری ملاقات سینٹرل جیل میں ہوئی۔ تب میں مشہور کمیونسٹ سازش جام ساقی کیس میں گرفتار تھا اور مقدمہ چلانے کے لیے لانڈھی جیل سے سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ ہم وارڈ نمبر 18 میں کھولی ساتھی ٹہرے۔ ہمارا ساتھ چند روز ہی رہا۔
جب مقدمہ کی کارروائی مکمل ہوئی اور خصوصی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا ، اس وقت ایم آرڈی کی تحریک کے دنوں میں ہمیں ایک بار پھر سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ ایک بار پھر میں اور راؤ صاحب کھولی کے ساتھی ہوگئے۔ ہمارا جیل میں ساتھ تقریبا سال بھرکا رہا۔ بعد میں راؤ صاحب کی صحت خراب ہونے لگی ، انھیں انسانی بنیادوں پر رہا کردیا گیا۔
جب بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت بنی تو ارشاد راؤ کو ان کا پریس سیکریٹری مقرر کیا گیا ، لیکن ڈائی ہارڈ سیاسی کارکن ہونے کی وجہ سے انھیں بیوروکریسی نے برداشت نہیں کیا۔ ارشاد راؤ کی آخر وقت تک خواہش تھی کہ '' الفتح'' کو دوبارہ جاری کیا جائے۔