وزیرداخلہ نے آج حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا

اجلاس میں طالبان کے مطالبات پر غور ہوگا، کمیٹی ارکان کی تجاویزکے بعد فیصلہ کن مذاکراتی مرحلہ شروع ہوگا،ذرائع


اجلاس میں طالبان کے مطالبات پر غور ہوگا، کمیٹی ارکان کی تجاویزکے بعد فیصلہ کن مذاکراتی مرحلہ شروع ہوگا،ذرائع. فوٹو:پی آئی ڈی/ فائل

وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کو طالبان کیساتھ مذاکرات کے عمل میں تیزی سے پیش رفت کرنے کی ہدایت کردی ہے جس کے بعد وزیرداخلہ نے آج اسلام آباد میں حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں مذاکرات میں تیزی سے پیشرفت لانے کی خاطر آئندہ کے لائحہ عمل اور ایجنڈے پر مشاورت کی جائے گی اور طالبان شوریٰ کیساتھ حالیہ ملاقات کا تجزیہ کیا جائے گا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ مذاکرات کے عمل میں تیزی کیساتھ پیشرفت ہو اور اس کو بلاوجہ طول نہ دیا جائے ۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اجلاس میں طالبان کے مطالبات کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے بھی تفصیلی غور وخوص کیا جائے گا اور مزاکرات کو تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے کمیٹیوں کے ارکان سے حتمی تجاویز لی جائیں گی ، وزیرداخلہ ان تجاویز پر وزیراعظم کو بریفنگ دیں گے اور اس کے بعد مزاکرات کا فیصلہ کن مرحلہ شروع ہوپائے گا ۔ ذرائع کا کہناہے کہ ابھی تک مزاکرات نہایت مثبت اندازمیں آگے بڑھائے جارہے ہیں اور دونوں اطراف سے یکساں مثبت ردعمل سامنے آرہاہے۔

حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں توسیع کیلیے بیک چینل رابطے شروع ہوگئے ہیں جبکہ پاکستانی حکام قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کی مدد سے طالبان کی جانب سے فراہم کردہ 250 غیر جنگجو افراد کی فہرست کی چھان بین کررہے ہیں ۔ طالبان نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ سیزفائر کے باوجود سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں چھاپوں اور سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان امن بات چیت بالخصوص حالیہ مذاکرات جو اورکزئی ایجنسی کے علاقے بلند خیل میں ہوئے ، سے واقف ذرائع نے بتایا کہ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے اور اس کو ممکنہ طور پر سبوتاژ ہونے سے بچانے کیلیے ضروری ہے کہ سیز فائر جو صرف رواں ایک ماہ کیلیے تھا ، میں مزید توسیع کی جائے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی اگلے 3 یا 4 روز میں طالبان کی شوری کے اراکین سے دوبارہ مل سکتی ہے جبکہ جنگ بندی میں توسیع کیلیے بیک چینل رابطوں کا آغاز بھی کردیاگیا ہے۔

حکومت نے متعلقہ اداروں جن میں قبائلی علاقوں کی انتظامیہ بھی شامل ہے کوہدایت کردی ہے کہ غیر جنگجو لوگوں کی جوفہرست طالبان نے فراہم کی ہے اس کی چھان بین کی جائے ، ان علاقوں میں جایا جائے اور فہرست میں مبینہ طور پر شامل عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی سکونت وغیرہ کے بارے میں معلوم کیاجائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقے سمجھتے ہیں کہ بچے،بوڑھے اور خواتین سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں نہیں ہیں مگر طالبان کی جانب سے اصرار پر چھان بین کے عمل کا آغاز کردیاگیا ہے۔ طالبان نے یہ الزام بھی لگایا کہ سکیورٹی فورسز اب بھی باجوڑ مہمند اور کچھ دیگر علاقوں میں سرچ آپریشن کررہی ہے تاہم ذرائع نے اس الزام کی پرزور تردید کی ہے اور کہاہے کہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز سیز فائر کے اعلان پر قائم ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ طالبان نے اپنے عسکریت پسندوں کی جو الگ فہرست دی ہے اس میں تقریباً800افراد شامل ہیں البتہ ابتدائی مراحل میں ایسے جنگجو افراد کی رہائی مشکل نظر آتی ہے۔ حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے رابطہ کرنے پر ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ جو فہرست انھوں نے غیر جنگجو افراد کے حوالے سے دی ہے ان میں کم از کم کچھ افراد کو پہلے مرحلے میں رہا کیاجائے تاکہ طالبان کی صفوں میں شامل سخت گیر مئوقف رکھنے والے افراد کو بھی مذاکرات کی طرف مزید مائل کیاجاسکے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ مبینہ طور پر فہرست میں شامل بچے،بوڑھے اور خواتین کے حوالے سے چھان بین کا آغاز کردیاگیا ہے اور دیکھاجارہا ہے کہ ان افراد کی ولدیت، سکونت اور دیگر کوائف جو فراہم کئے گئے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔