زندگی تیرا شکریہ
کتاب لکھنے اور پڑھنے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کی صورتحال پورے ملک سے مختلف نہیں
ہمارے ملک میں کتابوں سے محبت روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے طوفان نے تو ہماری اس عادت کو اور بھی بگاڑ دیا ہے۔
ظاہر ہے جب کتاب پڑھی نہیں جائے گی تو لکھے گا کون؟ خیر کتابیں لکھنے کے معاملے میں ہم پاکستانی پہلے بھی کچھ اچھے نہیں تھے لیکن سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے یہ سلسلہ کچھ نہ کچھ چلتا رہا۔
مہذب معاشرہ میں اب بھی کتب بینی کا شوق عام ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ معاشروں میں اچھی کتابیں لکھی جارہی ہیں اور پبلشرز اور رائٹرز اچھا خاصا پیسہ کما رہے ہیں۔کتاب لکھنے اور پڑھنے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کی صورتحال پورے ملک سے مختلف نہیں ۔ پشاور شہر کے گلی کوچوں میں قائم لائبریریاں ختم ہو گئی ہیں۔
اب انٹرنیٹ کا دور ہے لیکن انٹرنیٹ پر آنے والے مواد پر شکوک و شبہات برقرار رہتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے چند سیاستدانوں، سرکاری آفسروں اور صحافیوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ آپ سوچیں خیبرپختونخوا کے نامور صحافی رحیم اللہ یوسفزئی تک کو بھی کتاب لکھنے کی فرصت نہ مل سکی۔
میں نے کئی بار ان کی حوصلہ افزائی کی ، انھوں نے کچھ کام شروع بھی کیا تھا، پتہ نہیں اب اس کا کیا حال ہے ۔ رحیم اللہ صاحب افغان جہاد کے تمام تر تاریخی واقعات سے واقف تھے۔ اگر ان کی کتاب ہمیں پڑھنے کے لیے دستیاب ہوتی تو نئی نسل کو اس تمام تر لڑائی کی ایک واضح شکل نظر آتی۔ حالیہ دور میں ایک عقیل یوسفزئی صاحب ہیں جو کتابیں لکھنے کا شغل صحافت کے ساتھ ساتھ رکھتے ہیں۔
باقی اللہ خیر صلا۔ سیاست اور سرکاری ملازمین کا بھی یہی حال ہے۔ خان عبدالولی خان کے بعد شاید بیگم کلثوم سیف اللہ نے اپنی کتاب لکھی۔ باقی صوبے کے اتنے جید سیاستدانوں جنھوں نے صوبہ سرحد کو خیبرپختونخوا بنتے دیکھا۔ اس کی سڑکوں، عمارتوں، کارخانوں پر نظر رکھی، منظوری دی، قوانین پاس کیے، کئی سیاسی دور آئے لیکن انھیں تجربہ کے لیے اپنی نسل کو منتقل نہیں کیا۔
سرکاری ملازمین میں ہمارے سابقہ چیف سیکریٹری اعجاز رحیم صاحب کے بعد ایک دو اور حضرات نے کتابیں لکھیں لیکن اپنی شاعری پر مبنی اور وہ بھی انگریزی میں۔غرض ہمارے بزرگوں نے کئی وجوہات کی بناء پر ہمیں اپنے مشاہدے، تجربات اور ناکامیوں سے سیکھنے کے موقع سے محروم رکھا ورنہ اس میں کافی دلچسپ معلومات کے ساتھ ساتھ ان دنوں کے معمولات زندگی، رہن سہن، ترقی کی باتیں ہوتیں جو کئی نسلوں تک چلتی رہتی۔
خیر ہمارے صوبے اور ملک کے ایک انتہائی مہذب اور معزز سیاستدان نے اس روش کو توڑتے ہوئے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب شایع کر دی ہے۔
صوبے کے سب سے بڑے کاروباری اور سیاسی خاندان کے چشم و چراغ سلیم سیف اللہ نے''زندگی تیرا شکریہ '' کے نام سے اپنی سوانح حیات اپنی نگرانی میں تحریر کی ہے جس میں انھوں نے اپنے دادا فیض اللہ خان جن کا شمار متحدہ ہندوستان کے ایک بڑے نامی گرامی ٹھیکیداروں میں ہوتا تھا اور اپنی سخاوت اور ایمانداری کے لیے مشہور تھے کے حوالے سے بھی واقعات بتائے ہیں کہ وہ کیسے تونسہ شریف کے مرید بنے اور پھر انھوں نے ٹھیکیداری کے ذریعے اتنی دولت کمائی کہ ہر جگہ مساجد اور سرائیں قائم کیں، پیر صاحب آف تونسہ کو دیے جانے والے تحفے اب بھی تونسہ شریف کے توشہ خانے میں درج ہیں جس میں گیارہ تو صرف گاڑیاں ہیں جو پیر صاحب کو نذرانے میںدی گئیں۔
کتاب میں سلیم سیف اللہ نے اپنے ماموں اسلم خٹک جو کابل میں پاکستان کے سفیر رہے کے حوالے سے بھی یادداشتیں قلم بند کی ہیں اور یہ انکشاف کیا ہے کہ1958میں پاکستان اور افغانستان کے مابین کنفیڈریشن قائم کرنے کے تمام تر اقدامات مکمل کر لیے گئے تھے، کنفیڈریشن کا صدر افغانستان کے اس کے بادشاہ ظاہر شاہکو بننا تھا جب کہ چیف ایگزیکٹو پاکستان سے بننا تھا لیکن یہ منصوبہ ایوب خان کے مارشل لا کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔
کتاب میں سلیم سیف اللہ نے اپنی والدہ، شادی، تعلیم، بچوں کی پیدائش اپنے غیر ملکی دوروں، کاروبار اور مفاد عامہ کے لیے اٹھانے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالی ہے۔
زندگی تیرا شکریہ ایک سیدھے سادھے انسان کی سیدھی سادھی کہانی ہے جس میں بڑے بڑے انکشاف کرنے کے بجائے باہمی عزت و احترام کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔