مسیحا کون
ہر آنے والے حکمران نے جانے والے کو حالات کی خرابی اور مسائل کا ذمے دار ٹھہرایا اور خود کو ایک مسیحا
قوم یا فرد ہر دو فریق کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی رفتار طبع کے باعث تغیر و تبدل کو آسانی سے قبول نہیں کرسکتے۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اگر مزاج نہ بدلے تو قوموں اور افراد کی زندگیوں میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی قوم پر اگر بیرونی اثرات ڈالے گئے، خواہ تعلیم کے حوالے سے یا تہذیب کے ضمن میں، لیکن چوں کہ ذہنی طور پر قوم کا مزاج جذباتی تھا لہٰذا اس پر تعلیم و تہذیب کے اثرات محض ظاہری اور سطحی تک ہی محدود رہے۔
قوم میں کسی بھی قسم کی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ آپ رومن قوم کی مثال لے لیجیے جس نے یونان کے اثرات سے علوم حاصل تو ضرورکیے لیکن چونکہ ان کا مزاج عالمانہ نہیں تھا اس لیے وہ کوئی عظیم مفکر، دانشور اور سائنس دان پیدا نہ کرسکی۔
رومن قوم کے مزاج میں درحقیقت سپہ گری اور ملک گیری تھی اس لیے اس نے اپنا زیادہ وقت اور توانائیاں حربی میدان میں صرف کیں اس لیے فتوحات حاصل کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دیتے رہے۔ البتہ ایک کارنامہ ان کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے کہ رومن قوم نے انسانی تہذیب کو قانون کا فن عطا کیا جو رومن قوم کا عظیم عطیہ ہے لیکن چونکہ ان کی فکری بنیادیں کمزور تھیں اس لیے قانون سازی کے باوجود مملکت روما کی بنیادیں مستحکم نہ رہ سکیں۔
ایسے ہی کسی زمانے میں مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں نے اہل یورپ کو متاثرکیا تھا جس کے طفیل اہل یورپ نے یونیورسٹیاں بھی قائم کیں، یونانی اور مسلمان مفکرین سے استفادہ بھی کیا لیکن اس کے عملی اثرات اس وقت نمودار ہوئے جب اہل یورپ کا مزاج مسلمانوں کے اثرات سے عالمانہ ہوا۔ ہاں یہ ہوا کہ مزاج کے بدلتے کئی صدیاں بیت گئیں۔
یہاں سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب قوم کا مزاج جذباتی ہو جاتا ہے تو اس کے نتائج بھی خطرناک اور دوررس ہوتے ہیں۔ سب سے خوف ناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کی فیصلے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے، پھر فیصلوں میں عقل و دانش، حکمت و بصیرت اور تدبر و فراست سے کم اور جذبات سے زیادہ کام لیا جاتا ہے، درست اور بروقت فیصلہ کرنے کے لوازمات، جزیات اور حالات کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
اکثر صورتوں میں ہوتا یہ ہے کہ فیصلہ پہلے کر لیا جاتا ہے اور معلومات اور ان کا تجزیہ بعد میں کیا جاتا ہے۔ یعنی فیصلہ تو کسی وقتی تقاضے اور جذباتی تسکین کے لیے فوری کر لیا جاتا ہے اور پھر شعوری یا غیر شعوری طور پر وہی معلومات جمع کی جاتی ہیں جو اس فیصلے کی تائید میں ہوں۔ فیصلے وہی دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
جو حقیقتیں ان کی تائید و حمایت میں نہ ہوں ان کو پسند نہیں ہوتیں اس لیے ان کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح متبادل امکانات و آثار کا تجزیہ صحیح طور پر نہیں کیا جاتا ہے۔ فیصلے کی موافقت اور مخالفت میں دلائل کا معروضی طور پر جائزہ نہیں لیا جاتا۔ نہ ہی اپنی طاقت کا درست اور ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جاتا ہے اور نہ اپنے مخالف کی قوت اور طاقت کا درست تجزیہ کیا جاتا ہے۔
اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ فیصلہ کرنے سے کیا فوری نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے جزوقتی فوری نتائج کا ردعمل کیا ہوگا۔ بعینہ اس کے بعد کے حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ فیصلہ تو ایک فرد یا ایک جماعت کرتی ہے اور اس کے فوری نتائج بظاہر اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد عمل اور ردعمل کا سلسلہ بہت دور تک چلا جاتا ہے فیصلہ کرنے والے تو زندہ یا برسر اقتدار نہیں رہتے لیکن ان کے فیصلے کا خمیازہ ان کے بعد آنے والے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
آپ انقلاب فرانس کی مثال لے لیجیے کہ وہاں ہونے والے کشت و خون کی ذمے داری عموماً لوئی شانزدھم پر عائد کی جاتی ہے جو انقلاب فرانس کے وقت وہاں حکمران تھا لیکن جن مورخین نے انقلاب فرانس کا تجزیہ کیا ہے ، ان کا خیال ہے کہ انقلاب کی اصل وجہ لوئی شانزدھم کا دور نہیں بلکہ لوئی چہاردھم کا دور حکمرانی تھا۔
کیوں تجزیہ نگاروں کے نزدیک لوئی چہارم کی سخت گیری کی وجہ سے قوم کا ایک بڑا طبقہ بادشاہت کے شدید مخالف ہو گیا تھا۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ حکمرانوں کو اپنے پیش رو افراد کے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کچھ ایسی تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خاں جیسے مخلص رہنماؤں کے جانے کے بعد آنے والے حکمرانوں نے قومی مفادات کو ایسے داؤ پر لگایا کہ جمہوریت کا پودا تناور درخت نہ بن سکا پھر غیر جمہوری قوتوں نے غلبہ حاصل کیا تو پھر ملک دو قدم آگے تو چار قدم پیچھے ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ قائد کا پاکستان دولخت ہوگیا۔
ہر آنے والے حکمران نے جانے والے کو حالات کی خرابی اور مسائل کا ذمے دار ٹھہرایا اور خود کو ایک مسیحا کے روپ میں پیش کرکے قوم کا نجات دہندہ قرار دیا۔ ہم آج بھی ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ آزادی کے 75 سال گزر گئے لیکن حقیقی آزادی کا سوال آج پھر اٹھایا جا رہا ہے۔ قوم متذبذب ہے کہ کون رہزن ہے اورکون رہبر ہے کسے مسیحا جانے کس پر اعتبار کریں؟