جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
ہماری سیاسی اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی اسٹیٹس مین شپ سے محروم ہو چکی ہے
یوں تو ہماری سیاست اول روز سے ہی جھوٹ اور کہہ مکرنیوں کا نمونہ رہی ہے۔ امریکا، بھارت، اسرائیل اور سابق سوویت یونین کے ایجنٹ ہونے کا دل بہار نغمہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سیاست کے اسٹیج پر سنایا جانے لگا تھا۔
اب تو یہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے ملک پر کن کن ایجنٹوں کا راج رہا اور کتنے ایسے ایجنٹ تھے جنھیں ''محب وطنوں'' نے کیفرکردار تک پہنچا دیا۔ ذرا ایوب خان کا سراپا ذہن میں لائیں اور محترمہ فاطمہ جناح کے قد وقامت کو دیکھیں، غداری اور حب الوطنی کا فرق صاف ظاہر ہے۔
یحییٰ خان بھی ایک وجیہ اور خوبصورت جرنیل تھے، مجیب الرحمن کرتہ پاجامہ پوش بھلا یحییٰ خان کو کیسے پسند ہو سکتا تھا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ماتحت بنا کر لمبی حکمرانی کرنا چاہتا تھا۔ یہاں بھی غداری اور حب الوطنی کی تقسیم کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
بہرحال پنجابی میں کہتے ہیں کہ ''جدھے گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے'' اس لیے ایوب خان بھی سیانا اور زیرک اور یحییٰ خان بھی سچا اور کھرا حکمران تھا۔ اب ان کے مدمقابل شخصیات کو کون سا مقام دینا ہے، وہ آپ خود سمجھدار ہیں۔
ضیاء الحق اور اس کے دیدہ ور ساتھیوں نے پاکستان اور اس کے عوام کو ''گہرا سبز رنگ'' دیا اور اس میں لہو رنگ کی آمیزش کر دی۔ پھر کیا تھا، ہم مسلمان بھی تھے اور خودکش حملہ آور تیار کرنے والے بھی، دونوں میں ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ضیاء الحق کے ناک کے بال حمید گل نے جو مشن سنبھالا اور جو ڈش تیار کی، اسے کھا کر جوان ہونے والے آج بھی پاکستان میں کنفیوژن اور ابہام کا چورن بیچ رہے ہیں۔
آج ستر برس کے بعد پاکستان کا سیاسی کلچر ''بات پہنچی تیری جوانی تک'' کی تصویر بنا ہوا ہے۔ جھوٹ اور بہتان تراشی اب فیشن بنتی جا رہی ہے، سیاسی جماعتوں اور دیگر گروہوں نے تنخواہوں پر سوشل میڈیا چلانے والے نوجوان تیار کر رکھے ہیں جن کا کام ہی مخالفین کے کپڑے اتارنا اور ٹرینڈ بنانا ہے۔ حالانکہ قانون کی کتابوں میں ایسے ''کارناموں'' کو جرم ہی لکھا گیا ہے لیکن بات وہی ہے کہ جب ریاستی نظام ہی ''سجن بے پرواہ'' کا روپ دھارن کرلے تو پھر قانون کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔
پاکستان جیسا اب بن گیا ہے، ایسا کبھی ایسا نہیں تھا۔ انگریز راج جیسا بھی تھا لیکن ریاست کی رٹ گراس روٹ لیول تک موجود تھی۔سرکاری افسر اور اہلکار قانون سے سرتابی کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ کوئی دیسی کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو، راجے مہاراجے، نواب، جاگیردار، مذہبی لیڈر اور گدی نشین انگریز کے نظام کے سامنے سرنگوں تھے.
قیام پاکستان کے بعد بھی کچھ عرصے تک انگریز سے ورثے میں ملا ریاستی نظام طاقتور رہا، تعلیمی نظام پرامن بقائے باہمی کے اصول پر تیار کیا گیا تھا، وہ نظام برقرار رہا، بیوروکریسی بھی فعال تھی کیونکہ افسروں نے جو نصاب تعلیم پڑھ رکھا تھا، اس میں ملاوٹ نہیں تھی، درسی کتابوں میں جھوٹ اور انتہاپسندی والا مواد نہیں تھا، اسی وجہ سے ان افسروں نے نظام ریاستی کو روشن خیالی کے اصول پر چلایا۔
پاکستان میں سخت مذہبی فکر رکھنے والا طبقہ بھی موجود تھا، معتدل اور ماڈریٹ سیاسی نظریے کا پرچار طبقہ اپنی اہمیت رکھتا تھا ، کمیونسٹ اور سوشلٹ،سیکولر اور لبرل خیالات رکھنے والے بھی پوری آزادی سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تھے، انتہائی حساس موضوعات پر دلائل اور علم کی بنیاد پر مذاکرے اور جلسے ہوتے تھے۔ اس زمانے کے دائیں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں، علما، دانشوروں اور صحافیوں کی گفتگو اور تحریروں میں دلائل، منطق، شائستگی، علم اور گہرائی واضح نظر آتی ہے۔
سیاست میں حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی، ممتاز دولتانہ، میاں افتخارالدین ، اسلم خٹک، ولی خان، نوابزادہ نصراﷲ خان، مولانا مودودی،مولانا مفتی محمود، غلام غوث ہزاروی،اصغر خان، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، اقبال حیدر ،غوث بخش بزنجو، ذوالفقار علی بھٹو، شاہ احمد نورانی، جی ایم سید، ایوب کھوڑو جیسے بلند قامت، مہذب اور سلجھے ہوئے سیاستدان موجود رہے اور سب نے معاشرتی روایات کے تابع رہ کر جمہوری سیاست کی۔
سیاست کو زہر آلود کرنے کے منصوبے پر کام تو قیام پاکستان کے فوراً شروع ہوگیا تھا، لیکن انگریز کے چھوڑے ہوئے معتدل اور ماڈریٹ ریاستی نظام کو یکلخت پلٹنا یا تبدیل کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے نظام میںغیرمحسوس انداز میں نقب زنی کا آغاز کیا گیا۔ قائد اعظم کی تقریر کو ایڈٹ کرنا، قیام پاکستان کے بعد الیکشن میں جا کر عوام سے فریش مینڈیٹ نہ لینا اور غیرمنقسم ہندوستان میں انگریز حکومت کے تحت ہونے والے الیکشن میں منتخب ارکان پر مشتمل قانون ساز اسمبلی قرار دینا، قرار داد مقاصد سے رہنمائی لے کر آئین اور قوانین بنانے کا فیصلہ، یہ سب سسٹم کو غیرمحسوس طریقے سے تبدیل کرنے کا آغاز تھا۔
سرکاری سرپرستی میں معاشرے میں عدم برداشت اور دلیل سے عاری بیانیہ رائج ہونا شروع ہوا۔ نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں کی آمیزش شروع ہوئی، یوں سیاست بھی اس کا شکار ہو گئی اور ملک میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے بیانیے کی بنیاد پر سیاست کرنے والی لیڈرشپ پوری آزادی سے اپنا کام کرنے لگی اور مخالفین پر ملک دشمن، غدار ہونے کے الزامات شروع ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور آج عمران خان اور اس کے فالورز نے تو اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، اب تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کہاں ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اس صورتحال میں ایک طرف تو یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اصل لڑائی کیا ہے۔ معاشرے میں تضادات کیا ہیں۔ اس لڑائی میں فریقین کون ہیں اور لوگوں کے حقیقی غصے کا رخ کس طرف ہونا چاہیے؟ جو استحصالی، استبدادی اور حقیقی لٹیرے طبقات اور گروہ ہیں، وہ اس بیانیہ میں چھپ گئے ہیں۔ ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ انتہا پسندی اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہماری سیاسی اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی اسٹیٹس مین شپ سے محروم ہو چکی ہے۔ شدت پسندی، لسانیت، علاقائیت، فرقہ واریت اورقوم پرستی کے نام پرانتہائی پست ذہنیت والی سیاست کو اولیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس ناسور کے خاتمے کے لیے جس ذہانت، تدبر، جرأت اور بہادری کی ضرورت ہے، اس کا قحط پڑ چکا ہے۔ وہ لوگ دنیا سے اٹھ گئے جن کے دم قدم سے گھر کی رونقیں قائم تھیں۔ اب تو ہر طرف جھینگروں اور مینڈکوں کی آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا۔
میری باتیں آپ کو اداس کر رہی ہیں لیکن اقبال نے کہا ہے کہ
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
کیونکہ خود فراموشی بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ آخر میں کچھ ٹوٹے پھوٹے حرف، فیصلہ آپ ہی کریں، ان کی سچائی کا۔
جو خواب تھے
نہ میں کہہ سکا نہ لکھ سکا
زبان ملی تو کٹی ہوئی
قلم ملا تو بکا ہوا