2 کروڑ بچے اسکول سے باہر 70 لاکھ چائلڈ لیبر کا شکار تشدد بدقسمتی ہے ایکسپریس فورم

مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ 2014 میں منظور ہوا اب تک نوٹیفکیشن نہیں، ندیم اشرف


بچوں کے حقوق معاشی، سماجی اور ثقافتی نظام سے جڑے ہیں، ندا عثمان۔ فوٹو: ایکسپریس

بدقسمتی سے آج بھی 2 کروڑ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جبکہ70 لاکھ سے زائد بچے 'چائلڈ لیبر' کا شکار ہیں جو جسمانی و جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حا ل نہیں ہے۔

افسوس ہے کہ 'بچے' ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں، قوم کا مستقبل 48 فیصد بچے اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں جبکہ ملک میں تاحال 'چائلڈ پروٹیکشن پالیسی' نہیں بنائی جا سکی، گزشتہ برسوں میں اگرچہ بچوں کے حوالے سے قانون سازی بہتر ہوئی مگر ان پر عملدرآمد کے مسائل موجود ہیں، ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے تحت تاحال چائلڈ لیبر کیخلاف ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی جو سوالیہ نشان ہے۔

بچوں کے حقوق کثیرالجہتی ہیں، انکے مسائل بھی سنگین ہیں لہٰذا اداروں کے درمیان روابط کو بہتر بنانا ہوگا، اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لانا ہوگا اور جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھنا ہو گا، ان خیالات کا اظہار ماہرین، سول سوسائٹی اور بچوں کے نمائندوں نے ''بچوں کے عالمی دن'' کے موقع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔

ممبر پنجاب قومی کمیشن برائے انسانی حقوق ندیم اشرف نے کہا کہ بچوں کے حوالے سے کارکردگی میں کچھ بہتری تو آئی ہے مگر چائلڈ رائٹس کے انڈیکیٹرز میں ہم ابھی بہت پیچھے ہیں، 22 ملین بچے سکول نہیں جاتے، ان کے آئینی حقوق پامال ہو رہے ہیں، ہر سال 30 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں شامل ہوتے ہیں، حکومت چائلڈ رائٹس کو اہمیت دے، مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ2014ء میں منظور ہوا مگر تاحال اس کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا، ہم نے صوبائی اسمبلی اور وزیر کو بھی خطوط لکھے ہیں، بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنا کسی ایک ادارے کا کام نہیں ہے اگر ہم ترکی ماڈل پر کام کریں تو فائدہ ہوگا۔

نمائندہ سول سوسائٹی افتخار مبارک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال 1989ء میں منظور ہوا، پاکستان نے 1990ء میں اس معاہدے کی توثیق کی جو ممالک بچوں سے متعلق معاملات میں انکی رائے شامل نہیں کر رہے، وہ آرٹیکل 12کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 اے، مفت اور لازمی تعلیم کی بات کرتا ہے، چائلڈ لیبر کا خاتمہ، ان کا تحفظ، تعلی، صحت و دیگر حوالے سے قانون سازی موجود ہے، پارلیمنٹ متحرک مگر انتظامیہ نہیں، قانون بنانے والے اور عملدرآمد کروانیوالے دونوں ایک پیج پر نہیں ہیں۔

ماہر قانون ندا عثمان نے کہا کہ بچوں کے حقوق معاشی، سماجی اور ثقافتی نظام سے جڑے ہیں، ہر ملک اپنے حالات اور وسائل کے حساب سے ان پر کام کر رہا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں ترقی کی شرح انتہائی کم ہے، ہمارا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، اس کے منفی اثرات بچوں کے حقوق پر بھی ہورہے ہیں، چائلڈ فرینڈلی عدالتیں موجود ہیں، پولیس و دیگر محکموں میں بھی بچوں کے حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں۔

بچوں کے نمائندہ اسماعیل نے کہا کہ میں پنجم جماعت کا طالبعلم ہوں اور خوش ہوں کہ مجھے تعلیم مل رہی ہے، کھانے پینے کی اشیاء بھی دی جاتی ہیں، میرے جسے بہت سارے بچے سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہیں، دکانوں پر ملازمت کر رہے ہیں، وہاں انہیں مار پڑتی ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بچوں کی بھی عزت ہوتی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں