کیا ملک اس طرح چلا کرتے ہیں
ملک و قوم کے سنجیدہ حلقوں کو اب سوچنا ہوگا کہ کیا کوئی ملک اس طرح چل سکتا ہے
وطن عزیز 2017 سے معاشی و اقتصادی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ سیاسی اختلاف سے قطع نظر یہ بات ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ پاناما اسکینڈل آنے سے قبل باوجود بہت سی مشکلات کے ہمارا ملک ترقی و خوشحالی کی منازل خوش اسلوبی سے طے کر رہا تھا۔ اُس وقت کی حکومت نے سب سے پہلے ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔
ایسی خوفناک دہشت گردی جس نے ہمیں ساری دنیا سے دور کر دیا اور دس پندرہ سالوں تک یہاں کوئی غیرملکی سرمایہ کاری تو کیا ہوتی دنیا کی کوئی کرکٹ ٹیم بھی یہاں دورہ کرنے سے اجتناب برت رہی ہوتی تھی۔
ہمارا ملک دنیا میں ایک غیر محفوظ ملک سمجھا جانے لگا اور FATF نے ہمیں اچانک گرے لسٹ میں شامل کر دیا۔ ہم جو ایک محاذ پر دوسروں کی جنگ میں زبردستی ملوث ہوکر اپنے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہوتے تھے تو دوسری جانب معاشی و اقتصادی طور پر کنگال بھی ہوتے جا رہے تھے۔
ساتھ ہی ساتھ کراچی جیسے بڑے تجارتی مرکز میں روزانہ کی بنیاد پر قتل اور احتجاج نے پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ میاں نوازشریف کی اس وقت کی حکومت نے اِن دونوں مشکلات سے اس ملک و قوم کو باہر نکالنے کا بیڑہ اُٹھایا اور خدا کے فضل و کرم سے دو سالوں میں اس پر قابو بھی پا لیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب حکمرانوں کی نیتیں درست اور مخلص ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ضرور شامل حال ہو جایا کرتی ہے اور بڑی سے بڑی مشکل بھی آسانی سے حل ہوجاتی ہے۔
میاں نوازشریف کو اپنے اس تیسرے دور حکومت میں چار سال کا عرصہ ملا مگر اس چار سالہ دور میں اُن کے لیے مشکلات کچھ کم نہ تھیں۔ اقتدار ملے ابھی صرف ایک سال کا عرصہ بیتا تھا کہ خان صاحب اور علامہ طاہر القادری نے چند حلقوں میں دھاندلی کو جواز بنا کر ایک لانگ مارچ اور اسلام آباد میں عین پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے دھرنے کا پروگرام بنا لیا۔
دیکھا جائے تو جس غیر ملکی سازش کا رونا محترم خان صاحب اپنی حکومت کے بارے میں روتے رہتے ہیں وہ غیرملکی سازش تو میاں صاحب کی حکومت کے خلاف ترتیب دی گئی تھی۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ جس پر تیزی سے عملدرآمد نے ہمارے عالمی دشمنوں کی نیندیں حرام کردی تھیں اُسے روکنے اور سبوتاژ کرنے کے لیے پہلے یہ دھرنا لگایا گیا اور پھر اس میں ناکامی کی صورت میں مجبوراً پاناما اسکینڈل کا ڈرامہ رچایا گیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن یہ ملک اپنی پٹری پر واپس نہیں آسکا۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں GDP صرف تین فیصد رہ گئی ہے اور خان صاحب کے بقول اُن کے دور میں یہ چھ فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ خان صاحب کے ابتدائی سالوں میں یہ منفی درجوں میں پہنچ چکی تھی ، جس چھ فیصدGDP کا ذکر خان صاحب آج کل کر رہے ہیں وہ اُن کے آخری چھ ماہ کی بات ہے ورنہ تین سالوں تک تو وہ صرف ایک دو فیصد تک ہی پہنچ پائی تھی۔ موجودہ حکومت کو ابھی سات مہینے ہی گذرے ہیں اور اِن سات مہینوں میں بھی ایک دن کے لیے خان صاحب نے انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا ہے۔
روزانہ احتجاج اور لانگ مارچ کا سوانگ رچا کر وہ غیر یقینی فضا کو ختم ہونے ہی نہیں دے رہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جس دن خان صاحب میڈیا پر آ کر تقریر کیے بناء سونے جاتے ہوں۔ تقریر کرنا اُن کا مشغلہ بن چکا ہے۔ تقریر میں کوئی نئی بات چاہے ہو یا نا ہو لیکن انھیں تقریر ضرور کرنی ہے۔
پرانی ہی باتوں کو ایک نئے انداز میں دہرانے کا یہ عمل گزشتہ چھ مہینوں سے جاری ہے ، جب تک الیکشن نہ ہوجائیں اور وہ دوبارہ برسر اقتدار نہ آجائیں اس ملک میں امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا اوراگر وہ الیکشن ہار گئے تو پھر ایک نئے احتجاج کے لیے یہ قوم تیار ہوجائے۔ یعنی احتجاج صرف اُسی شرط میں ختم ہوگا کہ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت کر اسلام آباد میں حکمرانی کا تاج اپنے سر پر ایک بار پھر سجا نہ لیں۔ اس سے کم کسی بات پر وہ آرام و سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔
ایک ماہ سے وہ لانگ مارچ کرتے رہے ہیں۔ ایسا لانگ مارچ جس کی دنیا میں تاریخ نہیں ملتی۔ یعنی دن کے دو بجے شروع ہو کر شام سورج غروب ہونے پر وہ بھی غروب ہو جاتا ہے اور پھر دوسرے دن کسی اور مقام سے دوبارہ شروع ہو جاتا رہا جسے خان صاحب اور اُن کے چاہنے والے لانگ مارچ کا نام دیکر خوش ہو جایا کرتے ہیں۔
اب خان صاحب نے لانگ مارچ ختم کر کے 26 نومبر کو پنڈی پہنچنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس لانگ مارچ کا اصل مقصد کیا تھا خود PTI والوں کو بھی نہیں پتا۔ کہنے کو یہ نئے الیکشن کے قبل از وقت انعقاد کی غرض سے شروع کیا گیا تھا ، مگر 2022 میں تو یہ ممکن نہ ہوسکا اور اب جب سات آٹھ مہینے ہی رہ گئے ہیں تو پھر اتنی جلدی کیا ہے۔ مارچ کے دیگر پس پردہ مقاصد میں سے ایک تو آرمی چیف کی تعیناتی میں رخنہ ڈالنا اور دوسرے اس ملک کی معیشت کو سدھرنے نہیں دینا تھا۔ ان دونوں خفیہ مقاصد میں سے اول الذکر تو اب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جب کہ معیشت کو زک پہنچانے کا کام بہرحال کامیابی سے جاری ہے۔
ہمیں لگتا ہے کہ خان صاحب مسلسل احتجاج کی جس سیاست کو اپنے وطیرہ اور مشن بناچکے ہیں، وہ اگلے آنے والے مہینوں میں بھی جاری رہے گا۔ نئے انتخابات کا اگر اعلان بھی ہوجائے تو وہ الیکشن کمشنر کی غیر جانبداری پر اپنے تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ انھیں ہٹانے اور نیا چیف الیکشن کمشنر لانے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیں گے۔
اُن کا یہ مطالبہ بھی مان لیا جائے تو پھر وہ نئے الیکشن کمشنر کے انتخاب کو بھی یہ کہکر ماننے سے انکار کر دیں گے کہ یہ ن لیگ والوں کی مرضی سے بنایا گیا ہے تو میں نہیں مانتا۔ ان سب باتوں کے باوجود اگر نئے الیکشن بھی ہو جائیں تو وہ دھاندلی کا شور ڈال کر پہلے اُن انتخابات کو متنازع بنانے اور پھر اُس کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے۔ یعنی کسی حال میں چین سے نہ بیٹھنا ہے اور نہ بیٹھنے دینا ہے۔ افراتفری اور انتشار پیدا کرکے اس ملک کو دیوالیہ بنا کر چھوڑنا ہے۔
ملک و قوم کے سنجیدہ حلقوں کو اب سوچنا ہوگا کہ کیا کوئی ملک اس طرح چل سکتا ہے۔ روزانہ کا ہنگامہ اور احتجاج کسی ملک کی معیشت کی تباہی و بربادی کا ایسا باعث بنتا ہے کہ اُسے پھر کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ بہت ہوچکا ، بچکانہ سیاست نے اس ملک کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ اب انتشار کی سیاست کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ لانگ مارچ نے ملک کی معیشت کو ایسا بریک لگا دیا ہے کہ وہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ کوئی غیر ملکی سربراہ یہاں آنے پر تیار ہی نہیں ہے۔
ابھی حال ہی میں سعودی ولی عہد کا طے شدہ دورہ ملتوی ہوگیا اور ہمارا ملک دس بارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے محروم ہوگیا۔ اس کا ذمے دار ہم کسے گردانیں گے۔ خدارا ملک و قوم پر رحم کیا جائے اور انتشار کی سیاست کو پس پشت ڈال کر کچھ وطن عزیز کے بارے میں بھی سوچا جائے۔