موسمیاتی نقصانات عالمی فنڈ قائم

اس فنڈز کے قیام کی کوششوں میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت عالمی قائدین نے اہم کردار ادا کیا


Editorial November 22, 2022
اس فنڈز کے قیام کی کوششوں میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت عالمی قائدین نے اہم کردار ادا کیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وزیراعظم شہباز شریف کی کوششیں رنگ لے آئیں ، کوپ 27کانفرنس میں موسمیاتی نقصانات کے ازالہ کے لیے عالمی فنڈ (لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ ) قائم کردیا گیا جو موسمیاتی تباہی کے شکار غریب ممالک کے لیے بڑی خوش خبری ہے۔

اس فنڈز کے قیام کی کوششوں میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت عالمی قائدین نے اہم کردار ادا کیا۔ عالمی فنڈ کے ذریعے سیلاب اور دیگر موسمیاتی نقصانات کے شکار ممالک کو مالی معاونت مل سکے گی ۔ پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو میں بڑی مدد ملے گی۔

درحقیقت یہ اقدام دو ہفتے سے جاری مسلسل مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آیا ہے جن میں ترقی پذیر ممالک، ان امیر ممالک سے ازالے کا مطالبہ کرتے رہے جو ماحول کو آلودہ کرنے کا بڑا سبب ہیں جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں میں ترقی پذیر ممالک کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔

کوپ 27 میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بات چیت کا آغاز اقوام متحدہ نے کیا تھا۔ اس اجلاس میں '' نقصانات کے ازالے'' کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی تھی ، تاہم ترقی پذیر ممالک کی ٹھوس کوششوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور امیر ممالک کی مزاحمت پگھلتی چلی گئی جو کھلے عام موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمے داری لینے سے خوفزدہ تھے۔ اس حوالے سے بات چیت آگے بڑھنے کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کے موقف کو اہمیت حاصل ہوتی گئی۔

گزشتہ روز اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان اور ان کی ٹیم کے اس ضمن میں کردار اور محنت کو سراہا۔ نقصانات کے ازالے کے لیے قائم کیے جانے والا فنڈ سیلاب کی وجہ سے پُلوں اور گھروں کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلی کے دیگر اثرات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتا ہے۔

اسی طرح اس میں جزیروں، سمندروں اور ثقافتوں کو درپیش خطرات سے متعلق نکات بھی شامل ہیں۔اس سال موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات پاکستان میں دیکھنے کو اس وقت ملے جب ملک کے بیشتر حصے سیلاب میں ڈوبے جب کہ صومالیہ میں خشک سالی کے شدید خطرات پیدا ہوئے۔

متاثرہ ممالک دنیا کی توجہ کا مرکز بنے اور ان اقدامات کو روکنے پر زور سامنے آیا جن کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے جن کا بڑا نشانہ غریب ممالک ہیں۔ اسی طرح یہ ممالک پہلے سے ہی افراط زر اور بیرونی قرضوں کی زد میں ہیں۔

پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 30 لاکھ سے زائد بچے خطرات کا شکارہوچکے ہیں۔ امریکی میڈیا آؤٹ لیٹ ''ایکسیوس'' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ '' اندازے کے مطابق سیلاب میں تباہ ہونے والے 10 لاکھ مکانات ایسے لوگوں کے تھے۔

جن کا کاربن فوٹ پرنٹ اوسط امریکی یا یورپی شہری کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ اکثر موسمیاتی بحران کے سب سے زیادہ اثرات کا سامنا ان لوگوں کو کرنا پڑتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمے دار ہیں اور جن کے پاس وسائل بھی کم ہیں۔''

موسمیاتی تبدیلیاں کیا ہوتی ہیں اور ان کے اثرات کسی ملک کو کیسے متاثر کرتے ہیں، یہ شاید پاکستان سے بہتر کوئی بھی نہیں جانتا کیونکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو مذکورہ تبدیلیوں سے سب سے زیادہ تیزی سے متاثر ہورہے ہیں۔

کئی بین الاقوامی ادارے بار بار خبردار کرچکے ہیں کہ پاکستان آیندہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید متاثر ہوگا جس کی وجہ سے اسے شدید سیلابی سلسلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالیہ سیلاب نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی بھی سیلاب نے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہیں مچائی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سیلاب کی وجہ سے سوا تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔

اس وجہ سے جو جانی و مالی نقصان ہوا اس کا تخمینہ تو لگایا جاچکا ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں اور افراد کی بحالی کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔

پاکستان بذات خود حالیہ شدید سیلابوں کی صورت میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات بھگت چکا ہے جس میں 1700 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، لاکھوں گھر متاثر یا تباہ ہوئے اور چاروں صوبوں میں املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے کہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان کے مون سون کو ''خوفناک ترین'' بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ماہرین کے مطابق گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ صفر اعشاریہ چار فیصد ہے، جب کہ امریکا21 اعشاریہ پانچ اور چین 16 اعشاریہ پانچ فیصد تک ذمے دار ہے۔کوپ 27 میں پاکستان کی شرکت ہی وہ محرک تھا جس سے 'نقصانات کے ازالے' پر بات ہوئی اور امیر ممالک کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی کہ وہ ان ممالک کی مالی مدد کریں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے کی زد میں ہیں۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے جس کے ثمرات حالیہ مون سون کے شدید اسپیل، قبل از وقت گرمی کا موسم شروع ہونے، گلیشیئرز پگھلنے اور ہیٹ ویو کی صورت میں نظر بھی آرہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اس کے تباہ کن اثرات پر بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر ہے، یعنی پاکستان دریاؤں کے پانی کا فقط دس فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

گزشتہ برس اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ نے انسانیت کے لیے ایک کوڈ ریڈ جاری کیا تھا، اس کے تحت اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ابھی عمل نہیں کیا تو شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا انتباہ کیا گیا تھا۔ اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے، کیونکہ ہر 6 اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ موسم بدلتے ہی لاہور میں ایک مرتبہ پھر اسموگ کے خطرات بڑھنے لگے ہیں۔

اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر لاہور تا گجرات جی ٹی روڈ کے دونوں جانب کی گنجان صنعتی پٹی پر شاید ہی کوئی قطعہِ زمین خالی نظر آئے۔ لگتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی صنعتی پٹی پر 122 کلو میٹر تک ایک ہی شہر دوڑے چلا جا رہا ہے جب کہ دوسری صنعتی پٹی شیخوپورہ تا فیصل آباد تک چل رہی ہے، اگر صرف اسی صنعتی پٹی کے کارخانوں کی چمنیاں بدل دی جائیں؟

سڑکوں پر رواں ماحول دوست دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے جعلی فٹنس سرٹیفکیٹس کے معاملے میں قانون پر عملدرآمد کرایا جائے تو اسموگ میں آدھی کمی آ سکتی ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت کی ایک چشم کشا رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6 لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔

نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو اسموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، جب کہ اسموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ عالمی ادارہ صحت کی مذکورہ رپورٹ عام دنوں کے حوالے سے ہے اور اس امر کی شاہد ہے کہ ہماری فضا اس قدر زہریلی ہو چکی کہ اس میں سانس لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں موسم کی خلاف توقع تبدیلیوں نے انسانی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، موسم بہار میں ہی گرمی انتہا پر پہنچی اور مارچ میں ہیٹ ویو شروع ہوگئی۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جلد موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نمٹا گیا تو پاکستان میں واٹر اور فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ شدت اختیار کر جائے گا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی تسلسل سے یہ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں تو جانداروں کی زندگی خطرے میں پڑجائے گی۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، سد باب کے لیے پالیسی لیول پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گرین ہاؤس گیس ایمیشن جو کرہِ ار ض پہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہی ہے، اس میں وطنِ عزیز کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کی قیمت پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔

اس وقت پاکستان اور افریقہ میں انتہائی موسمی واقعات نے موسمیاتی تبدیلی کی عالمگیریت کو ظاہرکیا ہے۔ اس کے مہلک اثرات پر آنکھیں بند کرنا مجرمانہ غفلت ہوگی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب کی وجہ سے جس بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کے لیے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کم اور ترقی یافتہ ممالک زیادہ ذمے دار ہیں۔

لہٰذا یہ ترقی یافتہ ممالک کی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان اور اس جیسے ان دیگر ملکوں کے نقصانات کا ازالہ کریں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں