گرہمی مکتب وہمی ملا
چند روز قبل ایک فنکشن پر اسلام آباد سے آئے سابق سینئر بیورو کریٹ شکیل احمد سے ملاقات ہو گئی۔
چند روز قبل ایک فنکشن پر اسلام آباد سے آئے سابق سینئر بیورو کریٹ شکیل احمد سے ملاقات ہو گئی۔ بجائے روایتی گفتگو موضوع بنتی انھوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں دیہات کے اسکولوں کا معیار تعلیم دیکھنے کا شوق انھیں نہ معلوم کس جذبے کے تحت ایک گاؤں میں لے گیا۔ اگرچہ خود ان کی اپنی تعلیم شہری اور معیاری درس گاہوں میں اندرون و بیرون ملک ہوئی تھی لیکن وہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ نہ رہنے کے باوجود سمجھتے تھے کہ بنیادی تعلیم کے سلسلے میں ہمارے ملک میں توجہ کی بے حد کمی ہے۔ اس موضوع پر مجھے بھی اپنا ہم خیال پایا تو موصوف نے بذریعہ کار اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے ایک دیہاتی علاقے کا بغیر پروگرام اسکول وزٹ کا احوال سنایا۔ وہ موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ سے سفر کر رہے تھے اور کار بھی خود چلا رہے تھے۔
رستے میں ایک موڑ دیکھا تو کار کچے رستے پر ڈال دی اور راہگیروں سے گاؤں کے بوائز اور گرلز اسکولوں کا راستہ معلوم کیا۔ کئی جگہ گھومتے گھماتے بالآخر وہ ایک گری ہوئی چار دیواری کے سامنے پہنچے جس میں ایک کمرہ تھا جس کی تین شکستہ دیواریں تھیں اور ان میں سے آسمان دکھائی دے رہا تھا۔ اس ملبہ نما اسکول میں صبح کے گیارہ بجے نہ کوئی معلمہ تھی نہ کوئی طالب علم بچی نظر آئی البتہ شکیل صاحب کی اسکول میں مداخلت بے جا پر دو آوارہ کتے احتجاجاً بھونکتے ہوئے ایک طرف کو نکل گئے۔ انھوں نے بوائز پرائمری اسکول تلاش کیا جس کی حالت گرلز اسکول سے کچھ بہتر تھی لیکن وہاں آٹھ دس لڑکے ربر کی گیند اور ٹوٹے ہوئے بیٹ سے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ایک چوکیدار نما بزرگ وہاں نظر آیا۔ شکیل صاحب اتنے دل شکستہ تھے کہ انھوں نے دونوں اسکولوں کو دیکھا ضرور لیکن کسی سے بات کرنے کی ان میں ہمت رہی تھی نہ ہی ضرورت سمجھی اور واپس چل پڑے۔
ہم نے اس اہم ایشو پر، کہ خواندگی کی سرکاری طور پر جو چالیس فیصد سے زیادہ شرح بتائی جاتی ہے، گمراہ کن اور بوگس ہونے کے علاوہ مضحکہ خیز بھی ہے اس لیے بھی اتفاق نہ کیا کہ محض اپنا نام لکھ سکنے والے کو خواندہ قرار دینا عقلی اور منطقی طور پر ناقابل قبول ہے کیونکہ صرف پڑھ اور لکھ سکنے والے ہی کو خواندہ کہا اور تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اگر سرکاری پیمانے کو بنیاد بنایا جائے تو پھر میرا ایک صفائی کرنے والا ملازم جو اپنا نام تو لکھ لیتا ہے لیکن اپنے باپ کا نام نہیں لکھ سکتا' خواندہ ہونے کے زمرے میں آ گیا۔ ایسی جاہلانہ شرح خواندگی کے پیمانے پر تو ایک گھنٹے کی کوشش سے شرح خواندگی سو فیصد بھی تیار کی جا سکتی ہے۔ اس بحث فضول کو ایک طرف رکھ کر میں نے اور شکیل صاحب نے حقیقی خواندگی نہ ہونے کی وجوہ تلاش کرنے کے علاوہ تجاویز زیر بحث لانا اور گراؤنڈ رئیلیٹی پر توجہ دینا مناسب سمجھا۔
اسے ناکافی وسائل ہونا جواز بتایئے' پلاننگ کی عدم موجودگی کہئے' نیت کے فتور یا کرپشن کے زمرے میں ڈالیے' حقیقت یہ ہے کہ اکثر پرائمری اور مڈل اسکول ریکارڈ میں تو اساتذہ موجود ہوں گے زمین پر نہیں ہیں۔ ہمارے سروے میں یہ بھی آیا کہ کئی جگہ ایک آدھ دیوار سائٹ پر موجود ہے وہاں کمرہ نہیں ہے اور جہاں بیہودہ سی کمرہ نما عمارت بنائی گئی ہے نہ اس کا دروازہ ہے نہ چار دیواری۔
کئی اسکول سائٹس پر کمرے اور چار دیواری تو موجود ہیں لیکن پانی اور ٹائیلٹ مفقود جیسے کہ ان کی ضرورت ہی نہ ہو۔ کسی کسی دیہاتی علاقے میں اسکول کے نام پر بنے کمرے دکھائے گئے لیکن ان کا مقام کسی بااثر شخصیت کے ڈیرے کی ایکسٹینشن کے طور پر تعمیر ہو کر اس وڈیرے کے زیر استعمال تھا' اسے اسکول کہنا تو اسکول پر تہمت ہی کہلا سکتا تھا۔
ناخواندگی ختم کرنے اور غربت و افلاس سے جان چھڑانے کے سلسلے میں جموریت کی متوالی سیاسی پارٹیاں جب الیکشن مہم پر نکلتی ہیں تو جہالت و افلاس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے دعوے سرفہرست رکھتے ہیں اور انھی دو عفریتوں کے ڈسے ہوئے اپنے محبوب لیڈروں کو ووٹ دے کر اقتدار میں لاتے ہیں لیکن مشاہدہ کہتا ہے کہ غربت و جہالت دور کرنے کے دعویدار کبھی اپنے ان دو نعروں سے مخلص نہیں پائے گئے کیونکہ اگر بھوکے ننگے کو روزگار مل گیا اور ناخواندہ کو علم و عقل آ گئی تو وہ سچے اور منافق میں تمیز کرنا اور اپنے برے بھلے میں فرق سمجھنا سیکھ جائیں گے اور کسی مصطفی کمال پاشا کو اقتدار سپرد کر کے اپنا مستقبل سنوارنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہو جائینگے اسی لیے جہالت و مفلسی نے پاکستان میں مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لوگ ایک ہی سوراخ سے بار بار بلکہ ہر بار ڈسے جانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اگر باریک بینی سے ایسے شاطر لیڈروں کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو اس حقیقت کی قلعی کھل جائے گی کہ مفلسی اور جہالت دور کرنا ایسے مگرمچھوں کی Priority کبھی نہیں رہی' وہ تو Status quo کے پجاری ہیں۔
میں اور شکیل احمد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر وسائل اور زندگی ساتھ دیں تو صرف چار کاموں پر توجہ دی جائے جن کے ذریعے غربت و جہالت کو مات دی جا سکتی ہے۔ اول یہ کہ قانون سازی ہو کہ کوئی اسکول جانے کی عمر کا بچہ اسکول سے باہر نہیں رہے گا نہ ہی وہ محنت مزدوری کرے گا۔ کثرت اولاد پر الگ سے لوگوں کو شعور دیا جائے اور ممکن ہو تو قانون سازی بھی ہو۔ تمام پرائمری اسکول مرمت اور تعمیر کیے جائیں۔ کوئی کاغذی کارروائی نہ ہونے پائے جو مقامی بااثر' وڈیرہ' جاگیردار' کارخانہ دار اور گھر کا سربراہ بچوں کے اسکول جانے سے روکے یا رکاوٹ کھڑی کرے اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ہمارے ملک میں ماشاء اللہ انگنت مساجد ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر انھیں مسجد مکتب کا درجہ دے دیا جائے اور صبح 8 بجے سے 12 بجے تک ان میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس وقت بیشمار تنخواہ دار اسکول ٹیچر اپنے فرائض کی انجام دہی کے بغیر حرام خوری کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ کہ جن اسکولوں میں ان کی تعیناتی ہے وہ دور دراز جگہوں پر ہیں' موجود ہی نہیں یا گرے پڑے ملبے کے ڈھیر ہیں۔ متعلقہ افسر' وزیر اور وزیر اعلیٰ ڈویژنل لیول کمیٹیاں بنا کر مندرجہ بالا مشکلات کا تدارک کریں یعنی تعمیر' مرمت اور سہولیات فراہم کی جائیں، نزدیک ترین تعیناتیاں کی جائیں، غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے، ہر مسجد میں اسکول کی سہولت کا اضافہ کیا جائے یوں مسجد مکتب سے ہر دو قسم کی تعلیم فروغ پائے گی۔
ایک کام جو سب سے ضروری ہے وہ سب سے پہلے شروع کر دیا جائے۔ جو مضمون پڑھانا کسی استاد کی ذمے داری ہے اس میں اس استاد کو وقت دے کر، خود کو تیار کرنے کا وقت دے کر، اس کے لیے ریفریشر کورس کا بندوبست کر کے، اس ٹیچر کا بھی ٹیسٹ لیا جائے کہ وہ تدریس کے لیے اہل بھی ہے یا خود بھی نالائق ہے۔ ڈویژنل لیول پر کسی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو پڑھانے کے قابل ٹیچر کا چناؤ کرنے اور نالائقوں کی رپورٹ اوپر بھجوانے کا انتظام کیا جائے تا کہ ٹیچر کی اہلیت کا جائزہ بھی ہو جائے اور نالائق اور نااہل ٹیچرز سے طالب علموں کی جان چھڑا دی جائے۔ ضروری تو نہیں کہ ایک فٹ بال کے کھلاڑی سے ہاکی کا کھیل سکھانے کا کام لیا جائے اور دو جمع دو پانچ جیسی اہلیت رکھنے والے کو میتھمیٹکس کا استاد مقرر کر کے بعد میں سر پیٹ لیں کیونکہ
گرہمی مکتب وہمی ملا، کار طفلاں تمام خواہد شد