اللہ اپنی حفاظت میں رکھے


ڈاکٹر یونس حسنی November 25, 2022

آرمی چیف کی تعیناتی ایک معمول کا دستوری معاملہ ہے ، مگر حکومت اور محروم حکمران دونوں حلقوں نے اسے گفتگو کا موضوع بنا کر رکھ دیا تھا اور اب اس پر بحث جاری ہے ، حالانکہ یہ Talk of The Day ہرگز نہیں تھا۔

یہ ایک سیدھا سادہ معاملہ تھا۔ فوج اس سلسلے میں سمری وزارت دفاع کے ذریعے حکومت کو بھیجتی اور وزیر اعظم اپنی صوابدید سے مجوزہ ناموں میں سے کسی ایک پر نشان لگا کر اس کے انتخاب کا اعلان فرما دیتے۔

وزیر اعظم اس سلسلے میں اگر کسی سے مشورہ کرتے تو یہ بھی ان کا صوابدید ہوتا اور اس کی تشہیر کی ضرورت نہیں تھی فیصلہ صرف وزیر اعظم ہی کو کرنا تھا۔اب جب وزیر اعظم نے آرمی چیف کے نام کی سمری صدر مملکت کو بھیج دی ہے لہٰذا اس پر بحث ختم ہو جانی چاہیے۔اس مسئلے کو اب مستقل طور پر حل کر دینا چاہیے تاکہ آیندہ ایسی کوئی پریشان کن حالت پیدا نہ ہو اور تمام معاملات ایک قاعدے اور قانون کے مطابق طے پا جائیں۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو عمران خان کو اپنی سیاست کی پڑی تھی حالانکہ اس انتخاب سے ان کا یا کسی اور کا کوئی لینا دینا نہ تھا مگر انھوں نے کہنا شروع کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ آرمی چیف تگڑا اور محب وطن ہو۔

ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کی بات سن کر نظرانداز کردی جاتی مگر اس پر مباحثہ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ایک دستوری مسئلہ جسے صرف اور صرف وزیر اعظم کا اختیار حل کرسکتا تھا اس طرح موضوع گفتگو بنا جیسے یہ مسئلہ بھی جمہور کی رائے سے طے ہونا ہے اور ہر رد وکد اس پر اپنی رائے دینا اور منوانا لازم ہے۔

اب فوج میں تگڑا اور محب وطن کی شرط محض خیالی باتیں ہیں ، اگر تگڑا سے مراد صحت مند و توانا ہے تو کیا ہماری مسلح افواج میں جو دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کا کوئی افسر ایسا ہو سکتا ہے؟ جو لاغر و بیمار ہو اور ایسے افراد میں سے ایک صحت مند کا انتخاب ہو۔

اگر تگڑا سے عمران خان صاحب کی مراد جرأت مند اور بہادر کے ہوں تو الحمدللہ ہماری فوج میں ایسے افراد کی کمی نہیں اور ایسے افراد میں سے بہترین کا انتخاب کرنا مشکل ہوجائے۔

دراصل عمران خان صاحب کا منشا ہرگز یہ نہیں تھا۔ شاید ان کے مشیران میں سے کسی نے ان کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اس قسم کی ان ہونی باتیں کرکے حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ آرمی چیف کے انتخاب میں ان کے عمل دخل کو گوارا کرے اور بعض دیگر دستوری اداروں کی طرح اس ادارے کا چیف دونوں کی متفقہ منظوری سے طے ہو۔

یہ ایک بچکانہ بات تھی اس معاملے میں دستور بالکل واضح ہے کہ آرمی چیف کا تقرر وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے اور وہ اس میں کسی کے عمل دخل کو قانونی شامل نہیں کرسکتا۔ موجودہ حکومت ایک اتحادی حکومت ہے۔ اس میں وزیر اعظم جو اقدام کریں اس کے لیے اتحاد میں شامل جماعتوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔

اس لیے کہ وہ ان جماعتوں یا حلقوں سے صلاح مشورہ کرسکتے ہیں مگر پھر بھی قانونی اختیار وزیراعظم کا ہوتا ہے۔ عمران خان کے بارے میں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ وہ کب کیا بات کہیں گے اور کب مکر جائیں گے۔

ان کے مزاج اور رائے میں استقلال نام کو نہیں۔وہ یوٹرن لینے میں دیر نہیں لگاتے۔ مگر حکومتی حلقوں میں یہ جو بھان متی کا کنبہ ہے اس نے لب کشائی شروع کردی کسی نے کہا شہباز شریف ، نواز شریف کی مرضی سے آرمی چیف لگائیں گے۔ یہ بات عمران خان کو چڑانے کے لیے کی گئی مگر تیر نشانے پر لگا اور انھوں نے فرمایا کہ بھگوڑے سے رائے لے کر آرمی چیف مقرر کیا جا رہا ہے حالانکہ آرمی چیف فوج کے سربراہ کے مجوزہ افراد میں سے کسی کو لینا ہے اور اس کے باہر سے ہرگز نہیں لینا۔

اسی طرح کی باتوں کے باعث اس اہم معاملے کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا۔ عمران خان سے تو خیر کسی بھلائی کی توقع نہیں لیکن حکمران طبقہ نے بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض عمران خان کے ''جواب آں غزل'' پر ٹیپ کے مصرعے لگائے اس نے سارے مسئلے کو جگ ہنسائی کا سبب بنا دیا۔پھر عمران خان صاحب کا تازہ ترین بیان یہ آیا کہ ''وہ'' جسے چاہیں آرمی چیف لگائیں مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کیا یہ بات عمران خان کے اب سمجھ میں آئی ہے اور ساری مہم چلانے کے بعد تھک ہار کے موصوف نے وہ بات کہی جو واقعی ہے۔

عمران خان کو کوئی فرق پڑے یا نہ پڑے آرمی چیف کا تقرر وزیر اعظم ہی کو کرنا ہوتا ہے۔ اس سے نہ اپوزیشن کی چیخ پکار کام آ سکتی ہے نہ لانگ مارچ۔ اگر عمران خان اس کے خواہش مند ہیں تو ٹھہریں اور انتظار کریں اور جب اقتدار میں آجائیں تو دستور میں ترمیم کرکے وہ اپوزیشن لیڈر کے لیے یہ گنجائش نکال سکتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت وہ اپوزیشن لیڈر نہیں ہوں گے اور اس لیے اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔

ہمیں تو اس وقت خود عمران خان کی پڑی ہے۔ اپوزیشن اور حکمران اتحاد کے درمیان اختلاف ذاتی دشمنیوں تک پھیل چکا ہے اس کے باوجود دونوں جانب کے لوگ اس حد تک نہیں جاسکتے کہ دوسرے کی جان کا خطرہ بن جائے۔

ایسے حالات میں ہمیشہ کوئی تیسری انجان طاقت فائدہ اٹھانے آجاتی ہے۔ اس وقت عمران خان ایک ریلی میں شریک ہوں گے اس لیے وہ خطرات سے زیادہ قریب ہیں ، کوئی بھی ملک دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کی جان کے درپے ہو سکتا ہے۔ انھوں نے تو اپنے انتقامی جذبے کے تحت بقول ان کے چند لوگوں کے نام لے دیے ہیں لیکن وہ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کے لیے کوئی سان گمان نہ ہو۔ اللہ انھیں اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمارے رہنماؤں کو بصیرت سے نوازے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔