ابھرنا ہوگا
ہم کس جانب بڑھ رہے ہیں؟ ایک ایسے معاشرے کی طرف جہاں ہماری تہذیب، ثقافت اور مذہب کچھ بھی نہیں بس اندھیرے ہیں
لاہور میں ایک بہادر لڑکی نے ڈاکوؤں کی واردات کو ناکام بنا دیا ، اخبارات اور نیوز چینلز میں خبر بن گئی۔ اس بہادر لڑکی نے پستول تاننے والے کے ہاتھ سے پستول جھپٹ لیا اور اسی پر تان لیا اس کی ہمت دیکھ کر شہری بھی اس کی مدد کو آگے بڑھے اور یوں دونوں پستول والے شیطان جوتوں کا شکار بن گئے۔
ایک اور خبر سماجی تنظیم کے ارکان گاڑیوں کی چوری کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے تھے۔ موبائل اور پرسوں کی چوری، زیورات کی چوری گاڑیوں کے پرزوں کی چوری، انسانی اعضا کی چوری، بچوں کی چوری، آئیڈیا کی چوری ایک سلسلہ ہے چوریوں کا جو چلتا چلا جا رہا ہے۔
ہم کس جانب بڑھ رہے ہیں؟ ایک ایسے معاشرے کی طرف جہاں ہماری تہذیب، ثقافت اور مذہب کچھ بھی نہیں بس اندھیرے ہیں جو ہمیں نگلنے کو پوری طرح تیار ہیں لیکن ابھی روشنیاں باقی ہیں اور ہمیں انھیں بجھنے نہیں دیتا۔ ہمیں نکلنا ہی ہوگا ، اس آسیب سے جو ہماری زمین پر پھیلنے کی کوشش میں ہے۔
یہ کیسا آسیب ہے، دراصل یہ ایک وہم ہے، بہت خطرناک بیماری جس کا ہم شکار بننے کو تیار ہیں اور اس شکار کے اردگرد شکاری منتظر ہیں کہ شکار گرے اور یہ اس میں سے اپنا اپنا حصہ لے اڑیں۔حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے کی بات ہے۔ اس وقت تک ایران میں مسلمانوں کی حکومت نہ تھی۔
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں ہی مسلمان ایران کے شہر مدائن تک جا پہنچے تھے۔ رستم ایران کا نامور سپہ سالار ہمت و شجاعت میں آگے سپہ سالاری میں بھی دور دور تک شہرہ تھا۔ بویب کی شکست پر ایران میں کہرام مچ گیا اور ملکہ کو اتار کر یزدگرد کو بادشاہ بنا دیا اور رستم کو تیار کیا کہ مسلمانوں کے خلاف ان کو مٹانے کے لیے زور و شور سے تیاریاں کرے۔
جب حضرت عمر فاروقؓ کو اس بات کی اطلاع ملی تو آپؓ رستم کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کی کمان خود سنبھالنا چاہتے تھے لیکن مجلس شوریٰ اس رائے کے حق میں نہ تھی لہٰذا حضرت عمر فاروقؓ نے مجلس شوریٰ کے فیصلے کا احترام کیا اور سعد بن ابی وقاصؓ کی سپہ سالاری میں مجاہدین کی ایک تازہ دم فوج بھیجی۔اس فوج میں حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے معزز صحابہؓ بھی موجود تھے لیکن سپہ سالاری کا قرعہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے نام ہی نکلا تھا۔
اس لشکر نے قادسیہ کے مقام پر قیام کیا تھا۔ یہ جنگ اور اس کے مجاہدین کو کنٹرول کرنے والے دراصل امیرالمومنین کی ہدایت پر چل رہے تھے اور انھی کے مطابق چودہ آدمیوں کو سفیر بنا کر شہنشاہ یزدگرد کے پاس بھیجا۔ جس نے پہلے تو انھیں اپنی شان و شوکت، قوت اور روپے پیسے سے مرعوب کرنا چاہا، لالچ دیا کہ اپنے ملک واپس چلے جاؤ ، مگر وہ نہ مانے اور کہا کہ یا تو مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ دینا قبول کردو، ورنہ ہم تم سے جنگ کریں گے۔
یزدگرد نے غصے میں آ کر کہا،''جاؤ ہمیں تمہاری شرطیں منظور نہیں۔ رستم آ رہا ہے وہ تم سب کو قادسیہ کی خندق میں دفن کر دے گا۔''ایرانیوں کے پاس ہاتھی تھے۔ لڑائی شروع ہوئی تو ایرانی ہاتھیوں نے مسلمانوں کا بڑا نقصان کیا۔ قبیلہ بنی اسد نے بہت بہادری سے ہاتھیوں کے ریلے کو روکا بظاہر رستم کی جنگی پالیسی بڑی کامیاب رہی تھی کیونکہ ہاتھیوں کے مقابلے میں گھوڑے بدکتے تھے۔ رات ہوگئی تھی اور اس پہلے بریک میں ایرانی حاوی نظر آئے اب دوسرے حصے میں اس جنگ کا فیصلہ ہونا تھا۔
تشویش ناک صورت حال تھی، مخالف اسلحہ بردار اور طاقتور بھی تھے، جنگی حربوں سے واقف بھی تھے لیکن ہاتھی سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہو رہے تھے، رستم نے گھوڑوں کے مقابلے میں ہاتھیوں کو غالب رکھا تھا۔دوسرے دن جنگ کے میدان میں اونچے اونچے کالے ہیبت ناک سے دیو ہیکل نظر آئے، یہ کیا تھے؟ خوف ناک نظر آتے وجود ایرانی گھوڑوں کو بدحواس کر رہے تھے۔
جنگ جاری رہی یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا، یہ دیوہیکل سے وجود دراصل اونٹ تھے جنھیں عقل مند کنٹرولرز نے کالے برقعے پہنا دیے تھے۔ انسانی عقل نے ترکیب خوب بنی تھی۔تیسرے دن مسلمان مزید نڈر ہوئے اور ہاتھیوں پر اس بے جگری سے حملہ کیا کہ وہ بدحواس ہو کر اپنی ہی فوجوں کو روندھتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ اس سے اگلے دن ایرانی فوج کو اپنی شکست سامنے نظر آئی ایسے میں رستم خود مقابلے کے لیے اترا مگر ایک اکیلا کیا کچھ کرسکتا تھا؟
زخم کھایا اور نہر میں کود کر اپنی جان بچانی چاہی مگر بلال نامی ایک شخص نے اسے پانی میں سے کھینچ کر قتل کردیا۔ یوں رستم نامی گرامی سپہ سالار ایک غلام بلال کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ جنگ قادسیہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔اس وقت مسلمانوں کے عزائم بلند تھے انھیں اپنے رب پر یقین تھا اور اپنے امیر حضرت عمر فاروق ؓ کی ہدایات پر عمل کرنا ان کے لیے فرض کی طرح تھا۔مسلمانوں کو یقین تھا کہ انھیں جنگ جیتنی ہے۔
اس یقین کے ساتھ انھوں نے اپنی عقل کو بھی استعمال کیا، جس کی وجہ سے اونٹوں کو کالے لبادے اوڑھا کر مخالفین کی ٹرانسپورٹ ان کے حربی آلات کو متاثر کیا جس سے دوسرے ہی دن جنگ کا پانسہ پلٹتا دکھائی دیا۔رستم کی فوج ایک لاکھ بیس ہزار تھی جو اس وقت کے اعتبار سے مکمل آلات حرب سے مزین تھی ، لیکن ان کو زیر کرنے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی گئی تھی۔ ایران سے لے کر عرب تک دماغوں کو چلایا گیا تھا۔ ایران اس وقت ایک بہت بڑی طاقت تھا اس کو ہرانا آسان نہ تھا لیکن تدبیر، یقین، خلوص اور عقل نے اس کو ممکن کر دکھایا۔
آج ہم کہاں کھڑے ہیں، گلی کے کسی کونے سے ایک اسکوٹر نکلتی ہے بظاہر سیدھا سادہ آدمی یا نوجوان کبھی جینز میں تو کبھی شلوار قمیض میں، کبھی اکیلا تو کبھی دو تین گروپ کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور شریف ، معصوم، حالات کے مارے، مہنگائی کے ڈسوں کو لوٹ کر آرام سے چلے جاتے ہیں۔ ہم اعلیٰ درجے سے لے کر نچلے درجے تک چوریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
لاہور کی اس چھوٹی سی لڑکی کی بہادری پر ہم کیسے خوش ہو رہے ہیں، اس میں شرم کا عنصر بھی جھلک رہا ہے۔ ہمارے پاس قانون بھی ہے اور اس کی پاس داری کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی کراچی کے نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں لوٹ مار جاری تھی، قانون کے محافظوں کی گزرتے ہوئے نظر پڑ گئی تو لوٹ مار کرنے والوں کی جواں مردی دیکھیے قانون کے محافظوں پر اپنی پستول سے شعلے برسانے لگے، مارے گئے، پکڑے گئے، فرار ہوگئے، ہم سنتے رہتے ہیں۔
مقابلے چلتے بھی رہتے ہیں، لوٹنے والے، لٹنے والے اور بچانے والے محافظ بھی گزر جاتے ہیں۔ ہم ایک انتہائی عقل و فہم، بہادر و جری امت سے ہیں۔ ہم سب اوپر سے لے کر نیچے تک کچھ تو ایسا مس کر رہے ہیں کہ ہتھیلی برابر طمنچوں والوں کو نہ سنبھال سکیں۔ وہ کیا ہے جو ہم سے چھوٹ رہا ہے؟ ذرا سوچیے!